ہمیں زہر کھلانے والوں، اب خبردار

تحریر: نعیم خان
پچھلے کچھ دنوں سے ضلع پشاورکے ناجائز منافع خور، زائد المیعاد/ایکسپائرڈ و دو نمبر سے لیکر دس نمبر اشیاء فروخت کرنے والے، دنیا کی معروف فوڈ چینز کے آوٹ لیٹس میں حفظان صحت کے اُصولوں کے منافی خراب اور سڑی ہوئی اشیاء مہنگے داموں فروخت کرنے والے حلقوں میں شدید ہل چل مچی ہوئی ہے اور اس کی وجہ ہے ڈپٹی کمشنر پشاور کے وہ اقدامات جو وہ مفاد عامہ کیلئے ان خون چوسنے والے مفاد پرستوں کے خلاف کررہے ہیں۔
حال ہی میں ڈپٹی کمشنر پشاور نے پشاور شہر کے معروف، کھانے پینے کے عالمی شہرت کے حامل ریستوران ، مشہور اور بڑے بڑے ڈپارٹمنٹل سٹورز اور دیگر دکانوں اور ہوٹلوں پرچھاپےمار کر اُن کے کچن اورسٹورز میں موجود سبزیوں، گوشت اور خوراک کے دیگر اشیاء کا جائزہ لیا اور بہت افسوس کی بات کے بہت ساری اشیاء زائد المیعاد اور خراب یا گلی سڑی پائی گئیں۔ بڑے بڑے دپارٹمنٹل سٹورز میں موجود کھانے پینے کی اشیاء سمیت کاسمیٹکس اور دیگر اشیاء بھی زائد المیعاد اور خراب پائی گئیں۔ ڈپٹی کمشنر اور اُن کی ٹیم نے موقع پر ہی ایسے سٹورز اور رستورانوں کو نہ صرف بند کیا بلکہ اُن پر بھاری جرمانے لگا کر اُن کے مینجرز کو حراست میں لے کر اُن کی اشیاء کو ضبط کیاگیا ان لوگوں کے خلاف مختلف قوانین فوڈ سٹف کنٹرول ایکٹ1958، کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ1997، پیورفوڈ آرڈینینس1960 اور اینیمل سلاٹر ایکٹ کے تحت کارروائی کی گئی۔ ڈپٹی کمشنر اور اُن کی ٹیم کا یہ قابل تحسین کام اُن کی ذاتی دلچسپی، صوبے میں موجود بیوروکریسی اور سیاسی حکومت کی دلچسپی کے بغیر ناممکن تھا، اس اقدام کیلئے اُن کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ ڈپٹی کمشنر پشاور کے اس مہم کا مقصد عوام میں خریداری کرتے وقت اشیاء کی کوالٹی چیک کرنے، خوردونوشت ودیگر اشیاء کی ایکسپائری تاریخ چیک کرنے کی آگاہی کی بیداری پیدا کرنا ہے۔


افسوس کا مقام ہے کہ دہائیوں سے یہ حرام خور اور ناجائز منافع کمانے والے لوگ ہماری زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ اگر چھوٹے تاجر، دکاندار اور ٹھیلے چھابوں پر کھانے پینے کی اشیاء بیچنے والے افراد کو صفائی ستھرائی اور حفظان صحت کے اُصولوں کے خلاف کاروبار کرنے والوں سے گلہ کیا جائے تو وہ غربت و کم آمدنی کی وجوہات (وہ بھی قابل گرفت ہیں) دے سکتے ہیں مگر پشاور کے فائیوسٹار ہوٹل (پرل کانٹینینل ہوٹل)، عالمی معیار کے فوڈ چینز (کے ایف سی، پیزا ہٹ، منچیز و ٹوٹی فروٹی) اور مہنگے داموں اشیاء فروخت کرنے والے بڑے بڑے ڈپارٹمنٹل سٹورز(جانز آرکیڈ، اے ٹو زیڈ ڈپارٹمنٹل سٹور، ایوان سپر سٹور وغیرہ ) میں فروخت ہونے والی گلی سڑی، کیڑے مکوڑوں سے بھری، خراب اور زائد المیعاد اشیاء کی فروخت رونگٹے کھڑے کرنے والی بات ہے۔
دیر آید درست آید کے مصداق یہ اقدامات مفاد عامہ کے حق میں بہترین ہیں۔ کم از کم اُن افراد کو اس حقیقت کا علم ہوگیا جو ایک وقت کے کھانے پر ہزاروں روپیہ خرچ کرتے ہیں، جو مہنگے داموں ان ڈپارٹمنٹل سٹورز سے خریداری اس یقین کے ساتھ کرتے ہیں کہ اُن کی اشیاء معیاری ہونگی۔ لوگ زیادہ پیسہ خرچ کرکے ان ہوٹلوں، دوکانوں اور سٹورز میں خریداری معیاری اشیاء اور خوراک کے یقین پر کرتے ہیں۔ مگر صد افسوس کہ ان جیسے ہوٹلوں اور سٹورز میں نصف سے زائد اشیاء ایکسپائرڈ، خراب اور گلی سڑی نکلیں بلکہ یوں لگ رہا ہے کہ جو اشیاء بازار میں قابل فروخت نہیں رہتی وہی اشیاء یہ سٹورز اور ہوٹلوں والے سستے داموں خرید کر دوبارہ مہنگے داموں بیچتے ہیں۔ چونکہ یہ سٹورزاور ہوٹلز کاروباری لحاظ سے ایک نام اور مقام بنا چکے ہیں اس لئے کسی کو بھی ذرہ برابر شک نہیں گزرتا کہ یہ لوگ بھی اس طرح کا گھٹیا کام کریں گے کیونکہ لوگ آنکھیں بند کرکے ان پر یقین کرتے ہیں کہ یہ لوگ صاف ستھری اور حفظان صحت کے اُصولوں کے معیار کے مطابق اشیاء فراہم کریں گے ۔  
اگر ہم پاکستانی معاشرے پر نظر ڈالیں تو دھوکہ دہی، ملاوٹ، ناجائز منافع خوری، رشوت، دھوکہ دہی اور انسانی معاشرے سے متعلق تمام خرابیاں ہماری رگ رگ میں سرائیت کرچکی ہیں۔ اس قوم کا کوئی پرسان حال نہیں، جب کبھی بھی کسی دیانتدار افسر یا سیاسی لیڈر نے اس قوم و ملک کی بھلائی کیلئے کام کیا اس قوم نے اُن کے ساتھ جو سلوک کیا وہ کسی سے چھپا نہیں ہے۔ تاریخ اُٹھا کردیکھیں تو ایسی بہت ساری داستانیں آپ کو ملیں گی۔ حال ہی میں پنجاب حکومت کے فوڈ دپارٹمنٹ کی  ایک خاتون آفیسر نے لاہور اور دیگر شہروں کے نامی گرامی اور بڑے بڑے ہوٹلز اور ریستورانوں کا معائنہ کیا اور درجہ بالا حالات وہاں بھی پائے گئے۔ آج ٹی وی کے مختلف چینلز پر پولیس کی معیت میں چھاپہ مارٹیمزکے پروگرامز ریڈ، خفیہ،رنگے ہاتھ، وغیرہ وغیرہ اگردیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارے لوگ اللہ اور آخرت، سزا و جزاء کو بھول کر صرف اور صرف دنیا کی دولت سمیٹنے کیلئے انسانی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں اور ہمیں کھانے پینے کی اشیاء کے نام پر زہر کھلا رہے ہیں۔ تیل و گھی سے لیکر گوشت، کیا اچار، کیاسبزیاں اور کیا مصالحے یہاں تک کہ تعلیم اور تربیت میں بھی ملاوٹ، زندگی بچانے والی ادویات ہوں یا نوزائیدہ بچوں کی خوراک، کاسمیٹکس ہوں یا رنگ و روغن کی مصنوعات یہاں تک پینے کا پانی بھی زائد المیعاد، خراب اور انسانی صحت کے لئے مضر کوالٹی کا مہنگے داموں بیچ کر ناجائز منافع کمایا جاتا ہے۔  
اُمیدکی جاتی ہے کہ ڈپٹی کمشنر پشاور کی کارکردگی دیکھ کر دیگر اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز صاحبان اپنے اپنے ضلع میں موجود ہوٹلوں، ریستورانوں، ڈپارٹمنٹل سٹورز اور دیگر اداروں کے خلاف بھی بھر پورکارروائی کریں گے اور ان بڑی بڑی مچلیوں کو پکڑیں گے جو اپنا ناجائز منافع کمانے کیلئے بڑے بڑے نام اور لیبلز استعمال کرکے انسانوں کی جانوں سے کھیلتے ہیں۔ میں اپنی اس پوسٹ میں ڈپٹی کمشنر پشاور جناب ریاض خان محسود، اسسٹنٹ ڈپٹی کمشنر اُسامہ وڑائچ ، ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر فواد خان اور اُن کی ٹیم، موجودہ بیوروکریٹس اور سیاسی حکومت کاتہہ دل سے شکریہ ادا کروں گا کہ جنہوں نے ان کالی بھیڑوں کے چہرے سے نقاب ہٹا کر عوام کو باخبر کیا۔ ڈپٹی کمشنر پشاور نے اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ضلع پشاور میں اس عید پر بچوں کے ہتھیارنماکھلونوں پر پابندی بھی لگائی ہوئی ہے جس کا مقصد بچوں کی ذہنوں سے منفی اثرات کو ختم کرنا ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ہی ضلع بھر میں پلاسٹک بیگز کے استعمال اور بنانے پر دفع144 چوالیس کے تحت پابندی لگانے کے بارے میں بھی مشاورت کی جائے گی۔ اُمید ہے کہ ضلعی انتظامیہ کے ان اقدامات سے ہم ایک مثبت معاشرے کی طرف گامزن ہونگے مگر عوام پر بھی یہ فرض ہے کہ وہ انتظامیہ کی طرف سے عائد کی گئی پابندیوں اور احکامات کا خیال رکھیں اور قانون کی پاسداری کرتے ہوئے اُن پر عمل در آمد کو یقینی بنائیں۔ 
یہ تمام تصاویر ڈپٹی کمشنر پشاور کے فیس بک پیج سے لی گئیں ہیں ۔ ڈپٹی کمشنر پشاور کا فیس بک پیج یہاں کلک کرکے دیکھا جاسکتا ہے جبکہ اس مہم کے بارے میں ملک کے مؤقر رزناموں نے بھی اپنی رپورٹس شائع کیں ہیں جن میں سے "دی نیوز" اور "ڈان نیوز" کے رپورٹس پیش خدمت ہیں۔





Raid of Deputy Commissioner (DC Peshawar & Team, achievement regarding Operation against Expired items & Unhygienic Conditions of Restaurants & Hotels Kitchens

Comments

  1. بہت اعلی تحریر اور اہم معلومات

    ReplyDelete
    Replies
    1. شکریہ نجیب بھائی۔ ہمیں ان انسان نما بھیڑیوں کو بے نقاب کرنے میں انتظامیہ کی مدد کرنی چاہئے۔

      Delete

Post a Comment