پاکستان کو قدرت نے جہاں چار خوبصورت موسموں سے نوازا ہے وہاں پاکستان کے مختلف خطوں کو انواع و اقسام کے پھل سبزیوں اور دیگر اجناس کی پیداوار بھی عطاء فرمائی ہے۔ پاکستان کے ہر خطہ اور ہر علاقہ میں خوش نما ، لذیز، خوش رنگ اور خوش ذائقہ پھل وافر مقدار میں پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح سوات میں دیگر پھلوں کے ساتھ ساتھ دنیا کا بہترین آڑو؍شفتالو پیدا ہوتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سوات میں ہرسال تقریباً ایک لاکھ اسی ہزار ٹن آڑو پیدا ہوتا ہے، لیکن مناسب کولڈ سٹوریج نہ ہونے اور دیگر سہولیات کی عدم موجودگی کی وجہ سے آڑو کی پیداوار کا تقریباً چالیس فیصد حصہ ضائع ہوجاتا ہے۔ سوات میں وسیع وعریض علاقے پر آڑو کی کاشت کی جاتی ہے۔ جما دینے والی سردی کے اختتام پر جب ہر سو بہار کی آمدآمد ہوتی ہے اور گل بوٹوں کی ٹہنیاں کھلنے کیلئے بے تاب ہوتی ہے اُسی موسم میں آڑو کے درخت پر خوشنما اور خوش رنگ ہلکے گلابی رنگ کے پھول کھلتے ہیں۔ ہوا میں ان کھلتے پھولوں کی ہلکی ہلکی بھینی بھینی سے مہک محسوس کی جاسکتی ہے اور یہی موسم ہے جب مگس بانی بھی اپنے عروج پر ہوتی ہے، شہد کی مکھیاں اِن پھولوں سے رس اکٹھا کرکے قدرت کا شہکار لذت میں بے مثال صحت کا خزانہ شہد تیار کرتی ہیں اور اُن کے رس اکٹھے کرنے کے دوران قدرتی طور پر پولی نیشن کا عمل سرانجام ہوتا ہے جس میں پھلوں کے پھولوں کے زردانہ جسے انگریزی میں پولن کہتے ہیں پھول کے پھل پیدا کرنے کے عمل کو مکمل کرتے ہیں۔ بے جا زہریلی ادویات کے سپرے سے شہد کی مکھیاں ختم ہوتی جارہی ہیں اور اگر شہد کی مکھیاں مر گئیں تو ہمارے پھلوں اور سبزیوں میں قدرتی طور پر پولی نیشن کا عمل رک جائے گا اور ہم پھل سبزیوں سے محروم ہوجائیں گے اور کچھ عرصہ بعد انسان کی بقاء کو بھی خطرہ لاحق ہوجائے گا۔جاپان کے قومی ٹی وی این ایچ کے ورلڈ کی رپورٹ کے مطابق اسی خطرے کو بھانپتے ہوئے جاپان کے ایک علاقے میں مصنوعی طور پر سیب کے پھولوں میں پولی نیشن کے تجربات کئے جارہے ہیں اور یہ پولن باقاعدہ طور پر زمینداروں کو بیچا بھی جارہا ہے جس طرح ہمارے کسان مختلف اجناس کے بیج خریدتے ہیں ۔پھر ہاتھوں کے زریعے ایک ایک پھول پر یہ زردانے روئی لگے چھوٹے سے تنکے کے زریعے بکھیرے جاتے ہیں ۔ یہ نہ صرف بہت محنت طلب کام ہے بلکہ اس میں پھول سے پھل بننے کا عمل بھی کوئی خاص کامیاب نہیں ہے جبکہ یہی عمل شہد کی مکھیاں ہمارے لئے مفت میں کرتی ہیں۔ پھلوں اور سبزیوں اور دیگر اجناس پر ضرورت سے زیادہ زہریلی سپرے نہ صرف ہماری صحت کے لئے نقصان دہ ہے بلکہ فائدہ مند حشرات کیلئے بھی زہر قاتل ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں پھلوں اور سبزیوں پر سب سے زیادہ سپرے سوات کے علاقے میں کیا جاتا ہے ، جس کی وجہ سے نہ صرف ہمارا ایکو سسٹم تباہ ہورہا ہے بلکہ ناسمجھ کسان چند روپوں کے منافع کی خاطر ہماری صحت کے ساتھ بھی کھیلتا ہے۔ یہ وجہ ہے کہ پورے پاکستان میں کینسر کے مریضوں کی شرح ضلع سوات میں سب سے زیادہ ہے۔ حکومت کو اس طرف توجہ مبذول کرنا چاہئے اور کسان اور زمینداروں کو ایسے طریقے اپنانے کی ترغیب اور تربیت دینی چاہئے جس میں کم سے کم زہریلی ادویات کا استعمال ہو اور پیداوار زیادہ سے زیادہ حاصل ہو۔ ہمارے قارئین کیلئے مشورہ ہے کہ جب بھی آڑو کھائیں ہمیشہ اچھی طرح سے دھو کر اور چھلکا اُتار کر کھائیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک آڑو کی فصل پر سولہ اقسام کے سپرے کئے جاتے تھے مگر اب جدید تحقیق اور ریسرچ کی بدولت یہ سپرے سولہ سے گھٹ کر صرف چھ رہ گئے ہیں ، لیکن پھر بھی بطور احتیاط جب بھی آڑو کا پھل کھائی ہمیشہ دھو کر اور چھلکا اُتار کرکھائیں۔
ایگری ٹورزم کارپوریشن آف پاکستان کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ عوام کو سستی اور صحت مند تفریح دی جائے۔ عوام میں آرگینک پھل اور سبزیوں کے استعمال کو فروغ دیا جائے ۔ ایگری ٹورزم کارپوریشن آف پاکستان ، پاکستان کے مختلف علاقوں میں وہاں کے پھل اور سبزیوں کے باغات میں عوام کیلئے تفریحی اور معلوماتی ٹورز کا احتمام کرتی ہے ، جس کا مقصد کسان اور عوام کے درمیان فاصلے کو ختم کرنا ہے، تاکہ عام آدمی بہتر قیمت میں بہترین اور بالکل تازہ پھل اور سبزی براہ راست کسان سے خرید سکے اور کسان کو بھی اپنی محنت کی اچھی قیمت اُس کی دہلیز پر مل سکے اور ساتھ ہی ساتھ ایسے پروگرامز میں نہ صرف ہمارے بچے اور بڑے قدرت کے ان تمام کاموں کو قریب سے دیکھنے کا مشاہدہ کرتے ہیں بلکہ اُن کی معلومات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
اس سال ایگری ٹورزم کارپوریشن آف پاکستان کے بینر تلے ۲۸جولائی ۲۰۱۸ ء کو ٓسوات کے خوبصورت علاقہ چارباغ کے مضافات میں سوات یونیورسٹی کے نئے کیمپس کے پہلوں میں خوبصورت اور سرسبز باغوں کے درمیان "پک یوور پیچ"کے نعرے کے ساتھ فیملیز کیلئے ایک خوبصورت پروگرام ترتیب دیا گیا۔جناب ڈاکٹر فضل ربی اور اُن کے بھائی انجینئر فضل غنی نے اس پروگرام کی میزبانی کی اور اپنے باغات کی سیر کروائی۔ اس پروگرام کی خاص بات یہ تھی کہ ان کے باغات بالکل آرگینک طریقے سے تیارکئے گئے ہیں اور ان پر کوئی زہریلی سپرے یا کوئی بھی مصنوعی کھاد استعمال نہیں کی جاتی۔ اُن کے باغ میں آڑو کے فصل کے آخری اقسام کے آڑو لگے تھے جن کو نمبر۷ اور نمبر ۸ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ یہ ورائٹی سائز میں سب سے بڑے اور خوشنما، خوش رنگ اور نہایت ہی لذیز و خوش ذائقہ ہوتے ہیں اور سب سے بڑی بات کہ ان پر کوئی زہریلی سپرے نہیں کی گئی۔
اس پروگرام میں شرکت کیلئے فیصل آباد ، لاہور ، اسلام آباد سے اور مقامی فیملیز آئیں ہوئی تھیں۔ باغ میں انجینئر فضل غنی صاحب نے تمام شرکاء کا استقبال کیا، پہلے انجینئر فضل غنی صاحب نے شرکاء کو آڑو کے فصل ، اس کے اقسام ، امراض، کاشت، مارکیٹنگ، اور دیگر پہلووں پر تفصیلی اور جامع لیکچر دیا اور شرکاء نے بھی خوب سوال جواب کئے، ٹورر کے شرکاء کو باغ کی سیر کروائی گئی ، پھل توڑنے سے لیکر اس کی درجہ بندی اور پیکنگ اور پھر مارکٹ تک سپلائی کے تمام مراحل دکھائے گئے ۔ انجینئر فضل غنی صاحب نے آرگینک طریقہ کار سے اُگائے گئے پھلوں کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی اور حاضرین کو باغ میں موجود حشرات کو پکڑنے اور اُن کو پھل کو نقصان پہنچانے سے بچانے کیلئے بنائے گئے پھندہ بھی دکھایا گیا جس میں ایک جار کے اندر روئی پر مادہ کیڑے کے ہارمونز کو ڈالا گیا ہوتا ہے، نر کیڑہ اس ہارمونز کو محسوس کرکے اس ٹریپ؍جار کے اندر چلاجاتا ہے جہاں وہ پھنس جاتا ہے باہر نہیں نکل پاتا اور مادہ جو باہر ہوتی ہے وہ انڈے پیدا کرنے کے قدرتی عمل سے محروم رہ جاتی ہے۔ یہی نر اور مادہ کیڑے جب ملاپ کرتے ہیں تو مادہ پھر پھل کے اندر انڈا دیتی ہے جس سے لاروا پھل کے اندر پنپتا ہے اور پھل کو نقصان پہنچاتا ہے جس کو ہم عام زبان میں کہتے ہیں کہ پھل کو کیڑہ لگ گیا ہے۔ اب یہ جدید طریقے جن سے پھلوں پر زہریلی ادویات کے سپرے بھی نہیں کئے جاتے اور صحت مند پھل حاصل کئے جاتے ہیں آرگینک باغبانی میں اپنا یا جارہا ہے۔ آڑو کے باغ کی سیر کے بعد ٹور کے شرکاء کو میزبان اپنی نرسری لے گئے جہاں پر تمام شرکاء کو تفصیل سے آڑو کے بیج کو لگانے سے لے کر قلم کاری اور دیگر طریقوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا۔
ْاس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ایسی قانون سازی کرے کہ کسان اور زمیندار ایک مناسب مقدار میں ہی اپنی فصلوں اور باغوں پر زہریلی ادویات کے سپرے کرسکیں، اُن کو آرگینک طریقہ کار سے اُگائے جانے والی فصلوں کی بامقصد تربیت دی جائے اور اُن کو صرف اور صرف آرگینک اجناس اُگانے کا پابند بنایا جائے۔ پاکستان کے ہر علاقے میں پھلوں اور سبزیوں کو محفوظ رکھنے کیلئے کولڈ سٹوریج کے انتظامات بھی بہت ضرورت ہے ، سوات میں مناسب کولڈ سٹوریج نہ ہونے کہ وجہ سے ہر سال لاکھوں ٹن فروٹ اور سبزیاں ضائع ہوجاتی ہیں۔ عوام کو کسان اور زمیندار کے قریب لانے کیلئے جس طرح ایگر ٹورزم کارپوریشن اپنی تگ و دو کررہا ہے اور ہر موسم میں ہر علاقے کے پھل کے موسم کے مطابق ایگری کلچرل سیاحت کا بندوبست کرتا ہے، اس کو سرکاری سرپرستی اور اس میدان میں سہولیات فراہم کرنی چاہئے۔
ایگری ٹورزم کارپوریشن آف پاکستان کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ عوام کو سستی اور صحت مند تفریح دی جائے۔ عوام میں آرگینک پھل اور سبزیوں کے استعمال کو فروغ دیا جائے ۔ ایگری ٹورزم کارپوریشن آف پاکستان ، پاکستان کے مختلف علاقوں میں وہاں کے پھل اور سبزیوں کے باغات میں عوام کیلئے تفریحی اور معلوماتی ٹورز کا احتمام کرتی ہے ، جس کا مقصد کسان اور عوام کے درمیان فاصلے کو ختم کرنا ہے، تاکہ عام آدمی بہتر قیمت میں بہترین اور بالکل تازہ پھل اور سبزی براہ راست کسان سے خرید سکے اور کسان کو بھی اپنی محنت کی اچھی قیمت اُس کی دہلیز پر مل سکے اور ساتھ ہی ساتھ ایسے پروگرامز میں نہ صرف ہمارے بچے اور بڑے قدرت کے ان تمام کاموں کو قریب سے دیکھنے کا مشاہدہ کرتے ہیں بلکہ اُن کی معلومات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
اس سال ایگری ٹورزم کارپوریشن آف پاکستان کے بینر تلے ۲۸جولائی ۲۰۱۸ ء کو ٓسوات کے خوبصورت علاقہ چارباغ کے مضافات میں سوات یونیورسٹی کے نئے کیمپس کے پہلوں میں خوبصورت اور سرسبز باغوں کے درمیان "پک یوور پیچ"کے نعرے کے ساتھ فیملیز کیلئے ایک خوبصورت پروگرام ترتیب دیا گیا۔جناب ڈاکٹر فضل ربی اور اُن کے بھائی انجینئر فضل غنی نے اس پروگرام کی میزبانی کی اور اپنے باغات کی سیر کروائی۔ اس پروگرام کی خاص بات یہ تھی کہ ان کے باغات بالکل آرگینک طریقے سے تیارکئے گئے ہیں اور ان پر کوئی زہریلی سپرے یا کوئی بھی مصنوعی کھاد استعمال نہیں کی جاتی۔ اُن کے باغ میں آڑو کے فصل کے آخری اقسام کے آڑو لگے تھے جن کو نمبر۷ اور نمبر ۸ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ یہ ورائٹی سائز میں سب سے بڑے اور خوشنما، خوش رنگ اور نہایت ہی لذیز و خوش ذائقہ ہوتے ہیں اور سب سے بڑی بات کہ ان پر کوئی زہریلی سپرے نہیں کی گئی۔
اس پروگرام میں شرکت کیلئے فیصل آباد ، لاہور ، اسلام آباد سے اور مقامی فیملیز آئیں ہوئی تھیں۔ باغ میں انجینئر فضل غنی صاحب نے تمام شرکاء کا استقبال کیا، پہلے انجینئر فضل غنی صاحب نے شرکاء کو آڑو کے فصل ، اس کے اقسام ، امراض، کاشت، مارکیٹنگ، اور دیگر پہلووں پر تفصیلی اور جامع لیکچر دیا اور شرکاء نے بھی خوب سوال جواب کئے، ٹورر کے شرکاء کو باغ کی سیر کروائی گئی ، پھل توڑنے سے لیکر اس کی درجہ بندی اور پیکنگ اور پھر مارکٹ تک سپلائی کے تمام مراحل دکھائے گئے ۔ انجینئر فضل غنی صاحب نے آرگینک طریقہ کار سے اُگائے گئے پھلوں کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی اور حاضرین کو باغ میں موجود حشرات کو پکڑنے اور اُن کو پھل کو نقصان پہنچانے سے بچانے کیلئے بنائے گئے پھندہ بھی دکھایا گیا جس میں ایک جار کے اندر روئی پر مادہ کیڑے کے ہارمونز کو ڈالا گیا ہوتا ہے، نر کیڑہ اس ہارمونز کو محسوس کرکے اس ٹریپ؍جار کے اندر چلاجاتا ہے جہاں وہ پھنس جاتا ہے باہر نہیں نکل پاتا اور مادہ جو باہر ہوتی ہے وہ انڈے پیدا کرنے کے قدرتی عمل سے محروم رہ جاتی ہے۔ یہی نر اور مادہ کیڑے جب ملاپ کرتے ہیں تو مادہ پھر پھل کے اندر انڈا دیتی ہے جس سے لاروا پھل کے اندر پنپتا ہے اور پھل کو نقصان پہنچاتا ہے جس کو ہم عام زبان میں کہتے ہیں کہ پھل کو کیڑہ لگ گیا ہے۔ اب یہ جدید طریقے جن سے پھلوں پر زہریلی ادویات کے سپرے بھی نہیں کئے جاتے اور صحت مند پھل حاصل کئے جاتے ہیں آرگینک باغبانی میں اپنا یا جارہا ہے۔ آڑو کے باغ کی سیر کے بعد ٹور کے شرکاء کو میزبان اپنی نرسری لے گئے جہاں پر تمام شرکاء کو تفصیل سے آڑو کے بیج کو لگانے سے لے کر قلم کاری اور دیگر طریقوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا۔
ْاس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ایسی قانون سازی کرے کہ کسان اور زمیندار ایک مناسب مقدار میں ہی اپنی فصلوں اور باغوں پر زہریلی ادویات کے سپرے کرسکیں، اُن کو آرگینک طریقہ کار سے اُگائے جانے والی فصلوں کی بامقصد تربیت دی جائے اور اُن کو صرف اور صرف آرگینک اجناس اُگانے کا پابند بنایا جائے۔ پاکستان کے ہر علاقے میں پھلوں اور سبزیوں کو محفوظ رکھنے کیلئے کولڈ سٹوریج کے انتظامات بھی بہت ضرورت ہے ، سوات میں مناسب کولڈ سٹوریج نہ ہونے کہ وجہ سے ہر سال لاکھوں ٹن فروٹ اور سبزیاں ضائع ہوجاتی ہیں۔ عوام کو کسان اور زمیندار کے قریب لانے کیلئے جس طرح ایگر ٹورزم کارپوریشن اپنی تگ و دو کررہا ہے اور ہر موسم میں ہر علاقے کے پھل کے موسم کے مطابق ایگری کلچرل سیاحت کا بندوبست کرتا ہے، اس کو سرکاری سرپرستی اور اس میدان میں سہولیات فراہم کرنی چاہئے۔
بھائی کچھ تصویریں اس پوسٹ کے بلکل مخالف ہیں۔ پوسٹ میں آپ نے لکھا کہ یہ باغ سو فیصد ارگینک ہیں اور کوئی سپرے نہیں استعمال ہوئیں۔ مگر چند تصاویر سپرے کر سامان کے ساتھ سپرے کرنے والے لوگوں کی بھی ہیں۔
ReplyDelete