روہنجیا مسلمانوں کا ایک نسلی گروہ ہیں جو زیادہ تر میانمار یعنی برما میں رہتا ہے۔
روہنجیاؤں سے 1982 میں برما کی شہریت چھین لی گئی اور بدھ مت کی اکثریت والے اس ملک میں ان کو جور و ستم کا سامنا رہتا ہے۔
برمی ریاست انہیں بنگالی سمجھتی ہے اور بنگلہ دیش انہیں برمی کہتے ہیں اور وہ شہری آبادی سے دور بہت ہی بری حالت میں پرہجوم کیمپوں میں رہتے ہیں۔
میانمار میں اور وہاں سے بھاگ کر سمندروں میں پھنسے ہوئے روہنجیاؤں کے ساتھ جو بھی ہو رہا ہے اس کے متعلق دکھائی جانے والی تصاویر اور ویڈیوز بہت پریشان کن ہیں۔
بغیر خوراک اور پانی کے سمندر میں کشتیوں پر بے یار و مددگار روہنجیاؤں کی بہت سی تصاویر تو اصلی ہیں لیکن بی بی سی ٹرینڈنگ کو معلوم ہوا ہے کہ ان میں سے آن لائن پر دکھائی جانے والی اکثر تصاویر کسی اور تباہی اور کسی اور واقعے کی بھی ہیں۔
برطانیہ میں مقیم روہنجیا مسلمانوں کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن اور بلاگر جمیلہ ہنان کہتی ہیں کہ ’ہم سب لوگوں
کی تشویش کی قدر کرتے ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہر کوئی ان تصاویر کو شیئر کرنے سے پہلے ان کی تصدیق کر لے۔‘
انھوں نے بی بی سی ٹرینڈنگ کو بتایا کہ ’روہنجیا کے بہت سے المناک مناظر کی تصاویر حقیقی ہیں، اس لیے انھیں جعل سازی سے بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ سب سے زیادہ المناک تصاویر حقیقی تصاویر ہیں۔‘
برما میں اقلیت روہنجیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے بارے میں وہ خاموش ہیں۔
کئی دہائیوں سے لاکھوں روہنجیا مسلمان بنگلہ دیش کی سرحد کے قریب برما کی ریاست رخائن میں بستے ہیں۔ اگرچہ ان کی درد بھری کہانی حال ہی میں منظرِ عام پر آئی ہے تاہم بہت عرصے سے نہ انھیں شہریت کا حق تھا اور نہ ہی آزادیِ نقل و حرکت کا۔ ان کے مسائل کوئی نئے نہیں۔
اس بات پر بہت تنازع ہے کہ یہ لوگ وہاں پہنچے کیسے اور کہاں سے ان کا تعلق ہے۔
تو چلیں ہم تاریخ کی پیچیدگی کو ایک طرف رکھ کر دیکھتے ہیں۔ صرف ایک انسانی سطح پر سوچا جائے تو مغربی برما میں تقریباً آٹھ لاکھ افراد کو بنیادی انسانی حقوق حاصل نہیں اور انھیں اپنی پیدائش کے سبب امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔وہ اپنی غربت اور بے بسی کی وجہ سے اکثر انسانی سمگلنگ کی تنظیموں کا نشانہ بنتے ہیں۔
اسی حوالے سے مجھے فیس بک پر ایک وڈیو موصول ہوئی جو کسی نے اپنے موبائل سے ریکارڈ کی ہے جو میں نے اپنےفیس بک اکاونٹ سے شیئر بھی کی تھی اور اپنے فیس بک پیجز "میرا بلاگ نون" اور" نون والقلم " سے بھی شیئر کی تھی جو بہت ڈھونڈنے کے بعد بھی نہیں مل رہی۔ مطلب اس کو بھی فیس بک سے ہٹا دیا گیا ہے۔ اس ویڈیو میں مسلمانوں کے گاؤں پر بدھ مت بلوائی حملہ کرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں جو ایک گھر میں زبردستی گھس کر گھر کے مکینوں کو زدوکوب کرتے ہیں اور پھر اُن کو خنجروں، چاقوں اور بالوں سے مار مار کر ہلاک کردیتے ہیں۔ ان لوگوں کے بیچوں بیچ پیلے کپڑوں میں ملبوس ان کے بدھ مذہبی افراد بھی موجود ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے اب یہ ویڈیو مجھے نہیں مل رہی۔
burma-rohingya-muslim-massacre-myanmar-Urdu-Blog-Noons-www.noons.info-Naeem-Khan-naeemswat
Comments
Post a Comment