میرے شہر میں میری نسل لوٹنے والوں
پتا ہے!
کس طرح بیٹا جوان ہوتا ہے؟؟؟
آج تیسرا دن، پشاور سمیت پورے ملک کی فضا سوگوار، پاکستان کی تاریخ کا ہولناک دہشتگردی کا واقعہ، پشاور سمیت پورے ملک کی فضاء سوگوار۔ دنیا کے کونے کونے میں اس سانحے میں شہید ہونے والے طلباء و طالبات کا غم اپنا غم سمجھ کر منایا جارہا ہے۔ ابھی تک جھنڈے سرنگوں ہیں اور پتہ نہیں کب کب یہ سرنگوں ہوں گے۔
پوری دنیا اس غم میں شریک ہے، مشرق سے مغرب تک ہرجگہ ان طلباء کی یاد میں تقاریب ہورہی ہیں، دعائیں پڑھی جارہی ہیں، خاموشی اختیار کی جارہی ہے، سوگ منایا جارہا ہے، شمعیں و چراغ روشن کرکے غمزدہ خاندانوں سے اظہار یکجہتی کیا جارہا ہے۔ سول سوسائیٹی ہر جگہ تعزیتی تقریبات کا انعقاد کررہی ہے۔ عام لوگ بڑی تعداد میں مختلف جگہوں پر اکٹھے ہو کر اپنے غم کا اظہار کررہے ہیں۔ گلی گلی اس حادثے کے متاثرین و شہداء کی یاد میں شمعیں روشن ہیں اور جو بھی لوگ وہاں گزرتے ہیں ایک لمحے کے لئے کھڑے ہو کر جان بحق ہونے والوں اور زخمیوں کے لئے دعا ضرور کرتے ہیں۔ آج نہ صرف پشاور کا چھپہ چھپہ افسردہ و غمگین ہے بلکہ ہر آنکھ اشک بارہے۔ لوگ جہاں شہداء کی قبروں پر فاتحہ خوانی کیلئے جارہے ہیں وہاں زخمیوں کی عیادت کے لئے بھی بڑی تعداد ہسپتالوں کا رخ کررہی ہے۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ایک نئی تصویر اور ایک نئی کہانی سامنے آتی ہے جس کو سن کر اور دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ آرمی پبلک سکول کے بچے ہوں یا کہیں دور کسی علاقے کے مدرسے میں پڑھنے والے معصوم بچے ہوں جو آئے روز کے ڈرون حملوں میں اپنے نا کردہ گناہوں کی پاداش میں روز لہو لہان ہوتے ہیں، سب کا غم برابر ہے۔
کچھ عرصہ بعد یہ واقعہ بھی قصہ پارینہ بن جائے گا،ماؤں کی اُجڑی ہوئی گودیں تو دوبارہ آباد نہیں ہونگی مگر اللہ تعالیٰ اُن کو صبر عطاء فرما دے گا، لوگ پھر سے اپنے معمول کی مصروفیات میں گم ہوجائیں گے اور میڈیا کسی اور بحث کو لے کر آگے بڑھے گا۔ اب یہ وقت ہے کہ ان بچوں کی اس قربانی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے، ہم ایک دو دن تو شمعیں جلا کر، بینر اُٹھا کر احتجاج کرلیں گے لیکن پھر کیا ہوگاسب بھول جائیں گے۔
پرسوں فیس بک پر سرفنگ کرتے ہوئے ایک تصویر پر نظر گزری جس میں پشاور یونیورسٹی سمیت دیگر تعلیمی اداروں کے کچھ طلباء اندھیری رات میں پشاور پریس کلب کے سامنے بیٹھے نظر آئے، تصویر کا عنوان تعلیمی دھرنا تھا، کچھ حیران کن سا دھرنا۔ یہ طلباء صرف اور صرف دو باتیں لے کر دسمبر کی ٹھٹھرتی ہوئی ان ٹھنڈی راتوں میں بیٹھ کر حکومت سے صرف دو مطالبات لئے بیٹھے ہیں۔ایک یہ کہ ریاست ہر شہری کو تحفظ فراہم کرے اور دوسرا مطالبہ یہ کہ ملک بھر اور پورے صوبے میں موجود تدریسی درسگاہوں، لائبریریز کو بجائے سیاسی اکابرین کے نام کرنے کے بجائے ان ننھے شہداء کے نام کرکے ان کو اَمر کیا جائے۔
ان دو سادہ اور واضح مطالبات کو لے کر یہ طلباء سردی میں بیٹھے روز و شب اپنے دھرنے کے ثمریاب ہونے کا انتظار رکررہے ہیں۔ ہم سب کا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم بھی ان کے اس تعلیمی دھرنے کا حصہ بن کر اپنے مستقبل کے معماران کو ایک اچھا مستقبل دیں اور جنہوں نے آج قربانی دی خواہ وہ آرمی پبلک سکول کے بچے ہوں، اعتزاز حسن شہید ہو یا کسی دور دراز علاقے کے سکول مدرسے میں شہید ہونے والے طلباء و طالبات اُن کی قربانیوں کو یاد رکھا جائے۔
پوری دنیا اس غم میں شریک ہے، مشرق سے مغرب تک ہرجگہ ان طلباء کی یاد میں تقاریب ہورہی ہیں، دعائیں پڑھی جارہی ہیں، خاموشی اختیار کی جارہی ہے، سوگ منایا جارہا ہے، شمعیں و چراغ روشن کرکے غمزدہ خاندانوں سے اظہار یکجہتی کیا جارہا ہے۔ سول سوسائیٹی ہر جگہ تعزیتی تقریبات کا انعقاد کررہی ہے۔ عام لوگ بڑی تعداد میں مختلف جگہوں پر اکٹھے ہو کر اپنے غم کا اظہار کررہے ہیں۔ گلی گلی اس حادثے کے متاثرین و شہداء کی یاد میں شمعیں روشن ہیں اور جو بھی لوگ وہاں گزرتے ہیں ایک لمحے کے لئے کھڑے ہو کر جان بحق ہونے والوں اور زخمیوں کے لئے دعا ضرور کرتے ہیں۔ آج نہ صرف پشاور کا چھپہ چھپہ افسردہ و غمگین ہے بلکہ ہر آنکھ اشک بارہے۔ لوگ جہاں شہداء کی قبروں پر فاتحہ خوانی کیلئے جارہے ہیں وہاں زخمیوں کی عیادت کے لئے بھی بڑی تعداد ہسپتالوں کا رخ کررہی ہے۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ایک نئی تصویر اور ایک نئی کہانی سامنے آتی ہے جس کو سن کر اور دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ آرمی پبلک سکول کے بچے ہوں یا کہیں دور کسی علاقے کے مدرسے میں پڑھنے والے معصوم بچے ہوں جو آئے روز کے ڈرون حملوں میں اپنے نا کردہ گناہوں کی پاداش میں روز لہو لہان ہوتے ہیں، سب کا غم برابر ہے۔
کچھ عرصہ بعد یہ واقعہ بھی قصہ پارینہ بن جائے گا،ماؤں کی اُجڑی ہوئی گودیں تو دوبارہ آباد نہیں ہونگی مگر اللہ تعالیٰ اُن کو صبر عطاء فرما دے گا، لوگ پھر سے اپنے معمول کی مصروفیات میں گم ہوجائیں گے اور میڈیا کسی اور بحث کو لے کر آگے بڑھے گا۔ اب یہ وقت ہے کہ ان بچوں کی اس قربانی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے، ہم ایک دو دن تو شمعیں جلا کر، بینر اُٹھا کر احتجاج کرلیں گے لیکن پھر کیا ہوگاسب بھول جائیں گے۔
پرسوں فیس بک پر سرفنگ کرتے ہوئے ایک تصویر پر نظر گزری جس میں پشاور یونیورسٹی سمیت دیگر تعلیمی اداروں کے کچھ طلباء اندھیری رات میں پشاور پریس کلب کے سامنے بیٹھے نظر آئے، تصویر کا عنوان تعلیمی دھرنا تھا، کچھ حیران کن سا دھرنا۔ یہ طلباء صرف اور صرف دو باتیں لے کر دسمبر کی ٹھٹھرتی ہوئی ان ٹھنڈی راتوں میں بیٹھ کر حکومت سے صرف دو مطالبات لئے بیٹھے ہیں۔ایک یہ کہ ریاست ہر شہری کو تحفظ فراہم کرے اور دوسرا مطالبہ یہ کہ ملک بھر اور پورے صوبے میں موجود تدریسی درسگاہوں، لائبریریز کو بجائے سیاسی اکابرین کے نام کرنے کے بجائے ان ننھے شہداء کے نام کرکے ان کو اَمر کیا جائے۔
ان دو سادہ اور واضح مطالبات کو لے کر یہ طلباء سردی میں بیٹھے روز و شب اپنے دھرنے کے ثمریاب ہونے کا انتظار رکررہے ہیں۔ ہم سب کا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم بھی ان کے اس تعلیمی دھرنے کا حصہ بن کر اپنے مستقبل کے معماران کو ایک اچھا مستقبل دیں اور جنہوں نے آج قربانی دی خواہ وہ آرمی پبلک سکول کے بچے ہوں، اعتزاز حسن شہید ہو یا کسی دور دراز علاقے کے سکول مدرسے میں شہید ہونے والے طلباء و طالبات اُن کی قربانیوں کو یاد رکھا جائے۔
Comments
Post a Comment