تحریر:پروفیسر سیف اللہ خان ( سوات)۔
حال ہی میں خٹک سرکار نے ایک بے نظیر فیصلہ کیا ہے جس کے رو سے کلرکوں اور اسٹینو گرافروں کو اسکیل نمبر سترہ اور اٹھارہ تک ترقی دی گئی ہے۔ یہ ایک عمدہ اور قابل تعریف فیصلہ ہے۔ کیوں کہ مہنگائی اور نا اُمیدی کے اس دور میں ملازمین کا کچھ بھلا ہوجائے گا لیکن دوسری طرف یہی خٹک سرکار جونیئر ملازمین کے ایک اور طبقے کے خلاف سپریم کورٹ چلی گئی ہے۔ سپریم کورٹ جہاں مبینہ طور پر ہزاروں نہیں لاکھوں معاملات زیر غور ہیں، وہاں یہ علم کسی کو نہیں کہ اُن غریب ملازمین کے خلاف خٹک سرکار کی اپیل اگلے پندرہ بیس ماہ میں یا پندرہ بیس سال بعد سپریم کورٹ کے روبرو پیش ہوگی۔ کیوں کہ مبینہ طور پر جہاں لاکھوں معاملات؍ مقدما ت خٹک سرکار کی اپیل سے پہلے موجود تھے۔
خٹک سرکار کے یہ مزدور کش اقدام اسی سرکار میں تعینات چند سو کمپیوٹر آپریٹروں کے خلاف ہیں جن کی کام کی نوعیت، اُن کے پاس محفوظ (بلکہ امانت) سرکاری رازوں، اُن کی تعلیمی بلکہ تکنیکی مہارت کے پیش نظر پشاور ہائی کورٹ نے اُن کو اسکیل نمبر سولہ کی تن خواہ کا حکم دیا۔ پھر کیا تھا خٹک سرکار نے لنگوٹیاکس کر سپریم کورٹ میں اپیل درج کردی تاکہ ان نوجوان ملازمین کو چند روپوں کے فائدے سے خٹک سرکار دیوالیہ ہونے سے بچ جائے۔ ہائی کورٹ نے پورے غور فکر اور عدل کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اور خٹک سرکار کے نکتہ نظر کو مکمل توجہ اور انصاف کے ساتھ سننے کے بعد مزدوروں کے حق میں فیصلہ دیا ہوگا۔ لیکن کیا کریں بابو لیول سوچ والی حرکت کی۔ فی الوقت کمپیوٹر آپریٹروں کی بھرتی کے لیے تعلیمی استعداد انٹر میڈیٹ؍ ڈگری اور تیکنیکی استعداد ایک سالہ ڈپلومہ (صوبائی بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کا منظور کردہ) کمپیوٹر میں صوبائی پبلک سروس کمیشن مشتہر کرتا ہے۔
کمپیوٹر آپریٹروں کے بارے میں ایک مغالطہ ہمارے یہاں عام ہے۔ وہ یوں کہ کمپیوٹر کے آنے سے قبل اعداد و شمار رکھنے والے محکموں میں بڑی بڑی دیو ہیکل مشینیں ہوا کرتی تھیں۔ جن میں سوراخ دار کارڈز کے ذریعے اور کچھ دوسرے طریقوں سے اعداد و شمار (ڈاٹا) جمع کیے جاتے تھے۔ ان مشینوں پر کام کرنے والوں کو ’’کی پنچ آپریٹرز، کے پی او یا ڈاٹا انٹری آپریٹرز ڈی ای اوز کہا جاتا تھا۔ جب کہ کمپیوٹر کے آنے کے بعد وہ پورا نظام تبدیل ہوگیا ہے۔ غالباً اب نہ وہ دیو ہیکل مشینیں ہیں اور نہ سوراخ دار کارڈ بلکہ جن لڑکوں اور لڑکیوں کو پبلک سروس کمیشن ’’ڈاٹا انٹری آپریٹرز‘‘ یا ’’کی پنچ آپریٹرز‘‘ کے نام سے بھرتی کرتا ہے، وہ یہ کام نہیں کرتے۔ یہ ملازمین عموماً کمپیوٹر سافٹ وئیر کو استعمال کرتے ہیں جو بہ ذات خود ایک خصوصی علم ہے۔ ان کمپیوٹر آپریٹروں کے پاس پورے دفتر یا محکمے بلکہ بعض اوقات پورے نظام کا علم اور ریکارڈ ہوتا ہے۔ یہ چاہیں، تو بے ایمانی بھی کرسکتے ہیں، چاہیں، تو شدید ترین نقصان بھی قومی یا دفتری معاملات کو پہنچا سکتے ہیں۔
ایک اسٹینو گرافر اپنے افسر سے املا لے کر اُسے ٹائپ کرتا ہے( یہ الگ بات ہے کہ اب یہ لوگ بھی کمپیوٹر ہی استعمال کرتے ہیں)۔ اس کے بعد بات ختم ہوجاتی ہے جب کہ ایک کمپیوٹر آپریٹر مختلف طریقوں سے دفتری امور کا راز دان و محافظ (Custodian) ہوتا ہے، جتنی آسانی سے وہ کسی راز کو لیک کرسکتا ہے، کوئی اور نہیں کرسکتا۔ پھر یہ لوگ عموماً ڈگری ہولڈر معہ ایک سالہ ڈپلومہ ہولڈر ہوتے ہیں اور باقاعدہ پبلک سروس کمیشن کے منتخب کردہ بھی۔ ان خواص کو دیکھ کر عدالت عالیہ نے ان کو اسکیل سولہ دیا ہے۔ اس عطائیگی میں بہت زیادہ مالی خرچہ بھی نہیں تھا۔ کیوں کہ ایک طرف تو ان ملازمین کی تعداد کم ہے اور دوسری طرف یہ پہلے سے تن خواہوں کے اُس درجے میں ہوتے ہیں کہ ان کو اسکیل سولہ میں تن خواہ ملنے سے بہت کم مالی فرق پڑتا ہے۔ البتہ کرایۂ مکان کچھ اچھا ملے گا لیکن اُس سے بھی یہ مارکیٹ میں کرائے کا مکان نہیں حاصل کرسکتا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ خٹک سرکار ہائی کورٹ کے فیصلے کو بہانہ بنا کر اس اہم لیکن تنگ دست طبقے کو اسکیل نمبر سولہ سے نوازتی، لیکن اس نے بہتر سمجھا کہ اسے غیر منصفانہ طریقے سے محروم رکھا جائے، لہٰذا چند سو ملازمین کو دِق کروانے کے لیے خٹک سرکار سپریم کورٹ میں پہنچ گئی۔ یوں ایک طرف اس سرکار کی تنگ نظری یا کم از کم حقائق سے بے خبری (بہ الفاظ دیگر نالائقی) سامنے آگئی اور دوسری طرف متاثرہ ملازمین کو بد دلی اور مایوسی کا شکار کرگئی۔ ہوسکتا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تیس دن میں آجائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تیس سال میں بھی نہ آئے۔ اس اپیل میں پیشہ ورانہ عناد (Professional Riverly) زیادہ محسوس ہوئی۔ خٹک سرکار کو اپنے اپیل پر غور کرنا چاہیے۔
ایک اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر نے مجھ سے سوال کیا کہ سر میرے دفتر کے کئی کلرکس حضرات پے اسکیلوں کے لحاظ سے ہم سے بڑھ گئے ہیں۔ اب ایک سینئر ملازم، جونیئر ملازم سے کس طرح کوئی فیصلہ حاصل کرے گا؟ اس طرح ہم اپنے سے زیادہ سینئر ملازمین کی سالانہ خفیہ رپورٹس اور دوسرے انتظامی معاملات کیسے نمٹائیں گے؟
میں نے اپنی دانست کے مطابق جواب دیا کہ صوبائی حکومت نے جب پورے ملک کے بر خلاف اتنا بڑا فیصلہ کیا ہے، تو ضرور اس کے تمام پہلوؤں کو احتیاط سے دیکھا ہوگا اور ان دراصل جونیئر ملازمین کو جو اونچے پے اسکیل دیے گئے ہیں، یہ اُن کے ذاتی اسکیل (Personal Pay Scale) کی تعریف میں آئیں گے۔
بہ ہر حال صوبائی حکومت نے ایک ملغوبہ پیدا کردیا ہے۔ آج (بارہ ستمبر 2014ء) کے ایک بڑے صوبائی اخبار کے اداریے نے چند مزید نزاکتوں کی نشان دہی کی ہے۔ فی الوقت ایک نوجوان جج، مجسٹریٹ اپنے ریڈر سے کم مراعات یافتہ ہوگا۔ اگر صوبائی حکومت نے ان اونچے اسکیلوں کو بحال رکھتے ہوئے ذاتی تن خواہ (Personal Pay) قرار دیا تو تمام کے تمام انتظامی اور مالی اختیارات والے سوالات ختم ہو جائیں گے۔ اس طرح اگر خٹک سرکار نے کمپیوٹر آپریٹرز کے خلاف سپریم کورٹ سے اپنی اپیل واپس لی، تو ایک طرف یہ سرکار اپنا بڑا پن ثابت کردے گی اور دوسری طرف کسی بھی سافٹ ویئر کے ممکنہ حملے یا حادثے سے صوبہ بچ جائے گا اور انصاف کے تقاضے بھی پورے ہوجائیں گے۔ اگر صوبائی سرکار اپنی ضد (جو بلا وجہ اور خلاف عدل ہے) پر اَڑی رہی، تو کمپیوٹر آپریٹروں کو ذہنی طور پر پریشان رکھ کر اُن کی صلاحیتوں سے عوامی خدمات متاثر کر دے گی۔
دیکھتے ہیں الیکشن کمیشن کی مبینہ بے انصافی کے خلاف لڑنی والی تحریک انصاف کی حکومت خود کتنا انصاف اپنے جونیئر ملازمین کے ساتھ کرتی ہے
Comments
Post a Comment