تحریر:پروفیسر سیف اللہ خان ( سوات)۔
بیس اگست 2014ء کو پشاور سے شائع ہونے والے ایک بڑے اخبار نے خبر شائع کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ محکمۂ تعلیم کے پانچ سو کم و بیش اساتذہ کرام غیر تدریسی ذمہ داریوں سے وابستہ ہیں۔ ذاتی طور پر مجھے بھی اسی سہولت کے دریچے کے ذریعے غیر تدریسی ذمہ داریوں کو کئی سال تک نباہنا پڑا۔ اس لیے مجھے اساتذۂ کرام، ڈاکٹرز ، انجینئر صاحبان وغیرہ وغیرہ کی اپنی فیلڈز کے بجائےدفاتر میں کام کرنے کی قباحتوں کا براہِ راست مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ اتفاقاً میری غیر تدریسی امور پر تعیناتی کسی سفارش یا خواہش کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ ملٹری اکاؤنٹس ڈ پارٹمنٹ میں ایک لمبے عرصے تک تجربے کی بنیاد پر مجھے دفتری امور کے لیے موزوں سمجھا گیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ڈائریکٹوریٹ پہنچ کر مجھے اس تلخ حقیقت کا علم ہوا کہ غیر موزوں افراد کی تعیناتی کی وجہ سے نہ صرف کالج سیکٹر گونا گوں مشکلات کا شکار ہے بلکہ ملکی خزانے کو کروڑوں روپوں سے زیادہ کا نقصان مسلسل بار بار پہنچایا جا رہا تھا۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اساتذۂ کرام، ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈائریکٹر وغیرہ کی نشستوں پر بغیر درکار اہلیت کے براجمان ہوتے ہیں۔ اس لیے وہاں کلرک حضرات نے اپنی طاقت حاصل کی ہے کہ محکمے کو عملاً وہی لوگ چلاتے ہیں اورمحکمۂ تعلیم میں تعلیم کا معیار، مقدار، اس محکمے میں انتظامی اور مالی بے ضابطگیوں کی مقدار قوم کے سامنے ہے۔ محکمۂ تعلیم کے ایک بوڑھے کلرک (اب مرحوم) نے بیس سال قبل اُس وقت کے ڈائیریکٹر کو اتنا قابو کیا ہوا تھا کہ صرف اور صرف اپنی ہی طاقت سے اُس نے محکمہ کے ہر سطح کے ملازمین سے ہر ماہ کٹوتیاں شروع کر وائیں۔ اگر ایک لاکھ افراد سے اوسط دس روپیہ ماہوار وصول ہو، تو سالانہ ایک کروڑ بیس لاکھ ہوا۔ اس عظیم کٹوتی کے لیے نہ تو قانون بنایا گیا تھا اور نہ طریقۂ حسابات۔ آج درجنوں اساتذہ یونینوں میں شاید ہی کسی کو صحیح صورت حال کا علم ہو کہ یہ روپیہ کہاں جاتا ہے اور اس کو کس مد میں اساتذہ کی بہبود کے لیے استعمال کیا جاتا ہے؟ اگر ڈائریکٹرز نالائق نہ ہوتے، تو ایک کلرک کروڑوں روپے کی سالانہ اور لا محدود کٹوتیاں قانونی سہارے اور مختلف ضمانتوں کے بغیر غریب اساتذہ سے شروع نہ کرسکتا تھا۔ آج مؤرخہ چھ ستمبر 2014ء کے ایک بڑے صوبائی اخبار کی خبر کے مطابق کلرکس حضرات نے ایسے اساتذہ کو بحال کردیا ہے جو ملازمت سے فارغ کردیے گئے تھے۔ لیکن نام کلرک کا لکھا گیا ہے جب کہ ان بحالیوں پر دستخظ اور منظوریاں ضرور ڈائریکٹرز حضرات کی ہوں گی۔ اگر افسر قابل اور اپنے کام کا اہل ہو، تو کلرکس من مانیاں نہیں کرسکتے۔ پاکستان میں ہم نے بدقسمتی سے یہ سمجھ رکھا ہے کہ جس ملازم کو اسکیل نمبر سترہ یا اس سے اوپر کا اسکیل ملا، بس وہ ’’ہر فن مولا‘‘ ہوگیا۔ اسی تلخ حقیقت نے وطن عزیز میں تباہی مچادی ہے۔
اساتذہ کرام میں اسی فی صد سے زیادہ وہ پاکیزہ اور معصوم لوگ ہیں، جو درس و تدریس کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے اس میں مصروف ہیں۔ پندرہ بیس فی صد جاہ طلب اور کرسی کے دلدادہ ہوتے ہیں۔ اخباری اطلاع میں جن پانچ سو اساتذہ کا ذکر ہے، وہ اسی دس پندرہ فیصد والی جماعت سے ہیں۔ (مضمون ہذا میں لفظ ’’اساتذہ‘‘ سے اسکول، کالج اور یونیورسٹی سب کے اساتذہ مراد ہیں)۔ تعلیمی بورڈ میں اساتذہ، یونی ورسٹیوں میں اساتذہ، ٹیکسٹ بک بورڈ میں اساتذہ، مختلف ناموں سے موسوم بہت سارے پراجیکٹس میں اساتذہ، ڈائریکٹوریٹس اور سیکرٹریٹس میں اساتذہ، ضلعی اور سب ڈویژن کی سطح پر اساتذہ، قابل افسوس کارکردگی، تعلیم کی ترقی معکوس، امتحانی ہالوں میں نقل، امتحانی معاملات میں ظلم، زیادتی اور قابل نفرت کام سب کے سامنے ہیں۔ صوبائی حکومت نے اسکولوں میں اساتذہ کی نگرانی کا ایسا قابل تعریف نظام حال ہی میں متعارف کرایا ہے جس کے چلانے والے اساتذہ نہیں ہیں۔ اس لیے اخبارات میں اس نظام کے خلاف اساتذہ تنظیموں کے بیانات آرہے ہیں بلکہ یہ بھی احتجاج ہو رہا ہے کہ سرکاری اسکولوں میں جو رقوم حکومت دے رہی ہے، اُن کے اخراجات پر اُن سے نہ پوچھا جائے۔
چند روز سے ہمارے ایک پڑوس کے ضلع سے دھمکی آمیز بیانات اخبارات میں شائع ہو رہے ہیں کہ حکومت اسکولوں میں ریشنلائزیشن کی پالیسی سے دست بردار ہوجائے، ورنہ اسکولوں کو تالے لگادیے جائیں گے۔
’’ریشنلائزیشن‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ دیہاتی اور دور افتادہ اسکولوں میں کام کرنے کی بجائے سفارشی اور مرتشی خواتین و حضرات اپنی پسند کے اسکولوں میں ہوتے ہیں۔ تنخواہ دور کے اسکولوں کے نام پر لیتے ہیں، لیکن بیٹھے ہوتے ہیں اپنی پسند کے اسکولوں میں۔ صرف ایک مثال اپنے ضلع کے ایک زنانہ اسکول کی دیتا ہوں (نام لکھنے سے معذرت)۔ جہاں مشکل سے دس استانیوں کی ضرورت ہے اور انھی کے لیے بجٹ ہے، لیکن مذکورہ اسکول میں اُنتیس استانیاں بیٹھی گپیں ہانکتی ہیں۔ خریداری میں گھپلے، درسی کتب میں گھپلے، امتحانوں میں گھپلے، نا اہلیت ہر جگہ اتنی زیادہ ہے کہ قوم تباہ ہو رہی ہے۔ جہانزیب کالج کی مثال لیجیے۔ یہ صرف اپنی بارہویں جماعت پاس کرنے والے بچوں کو ڈگری تعلیم کی گنجائش پر نصف صدی قبل تعمیر ہوا تھا۔ کتنے ہائر سیکنڈری اسکول بنے، اُن کے بچوں کے لیے محکمۂ تعلیم کے ڈائریکٹرز نے کیا کیا؟ کچھ نہیں۔ نتیجہ یہ کہ جہانزیب کالج اب ایک میلے کا سماں پیش کرتا ہے۔ بیس سال سے زیادہ عرصہ ہوا حاجی بابا اسکول ہائر سیکنڈری کا درجہ حاصل کر چکا ہے، اُس میں لیبارٹریاں بھی بنی ہیں، لیکن سنا ہے کہ سائنس کے مضامین ندارد، مینگورہ کے بچے ایف ایس سی کی سہولت سے محروم۔
یہ اور اس قسم کے بے شمار مسائل کی وجہ ڈائریکٹوریٹس ہیں، جہاں ریگولر آفیسرز کی جگہ ’’سفارشی اساتذہ‘‘ قابض ہیں۔ ان کا خاتمہ ضروری ہے۔ ان کی بلڈنگز میں ایڈیشنل سیکرٹریز تعینات ہوں۔ تمام کے تمام گریڈ سترہ اور اس سے بالا افسران پی ایم ایس وغیرہ کیڈر کے ہوں۔ ان میں قابض اساتذہ واپس تعلیمی اداروں میں بھیجے جائیں۔ ان کے جونیئر ملازمین کو سیکرٹریٹ کیڈر میں یا اسکولوں، کالجوں میں کھپایا جائے۔ یوں بے روزگاری کا مسئلہ نہیں اُٹھے گا۔
اُستاد کی اصل جگہ کلاس روم ہے دفتر نہیں۔ دفاتر میں ان کی غیر موزونیت ثابت ہوچکی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments
Post a Comment