ایک دہائی بعد اُس مسجد میں نماز تراویح ادا کرنے کا موقع مل رہا ہے جہاں بچپن کے بارہ تیرہ سال گزرے تھے۔ رمضان کے روح پرور اور پررونق موقع پر ہر مسجد میں تراویح کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں بچے بڑے بوڑھے جوان سب اپنی استطاعت کے مطابق رحمت اور برکتوں کو سمیٹتے ہیں۔
مجھے یاد ہے جب ہم اس مسجد میں تراویح پڑھنے آتے تھے تو لمبی لمبی رکعتوں کے درمیان چھوٹی چھوٹی شرارتیں کیا کرتے تھے،ایک دوسرے کو کہنیاں مارنا، چھوٹی چھوٹی سی حرکتوں پر کی کی کرکے ہنسنا، سجدے میں جاکر ایک دوسرے کوہلکے ہلکے دھکے دینا، نیت باندھے دوست کے گریبان میں پانی ڈالنا، ہلکی ہلکی آوازوں میں باتیں کرنا، سلام پھیرنے کے بعد یک دم خاموش ہوکر شریف بن جانا اور پھر جماعت میں کھڑے کسی بڑے کے غصے کا شکار ہوکر بیشتر اوقات تپھڑ کھانا،اس مرتبہ ان ساری چیزوں کی کمی بہت محسوس ہورہی ہے۔ حالانکہ اس درمیان دوسری مساجد میں بھی تراویح پڑھنے کا موقع ملا مگر وہاں یہ احساس نہیں ہوابلکہ وہاں بھی جو بچے تھے وہ بھی بہت سنجیدہ اور خاموش کھڑے ہوتے تھے۔ غرض یہ نہیں کہ لوگ مسجد میں اور نماز کے درمیان شرارتیں شروع کریں عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بچے اپنی عمر سے زیادہ سنجیدہ کیوں ہوگئے ہیں؟ اعتراض کرنے والے زرہ رکئیے۔ بچے معصوم ہوتے ہیں اور اُن کی چھوٹی چھوٹی شرارتوں اور ہلکی پھلکی حرکتوں سے بڑوں کا دل بہلتا ہے اور ان کو اس عمل کے لئے سزا وار نہیں ٹھہرایا جاتا۔ ایک روایت کے مطابق اکثراوقات جب نبی کریم صل اللہ علیہ و آلیہ وسلم عبادت فرمایا کرتے تھے تو حضرت حسن اور حسین (رض) آکر آپ (ص) کے کاندھوں مبارک پر سوار ہوتے اور آپ (ص) تب تک سجدے سے نہ اُٹھتے جب تک دونوں نواسے کرام کندھوں سے اُتر نہ جاتے۔ یہ کہیں بھی ریکارڈ میں نہیں ہے کہ آپ (ص) نے کبھی اُن کو منع کیا ہو یا سزا دی ہو۔
ہاں البتہ جب بڑے بچے بے جا شرارتیں کریں اورنمازیوں کی عبادت میں خلل ڈالیں تو اس اَمر کی سختی سے ممانعت لازم ہے۔ مگر پتہ نہیں کیوں چھوٹے بچے آج کل مجھے حد سے زیادہ سنجیدہ کیوں لگ رہے ہیں۔ میں یہ کمی محسوس کررہا ہوں کافی دنوں سے اور شاید آپ لوگ بھی اس کو محسوس کرچکے ہوں۔
مساجد میں بچوں کی تعداد بہت کم ہو کر رہ گئی ہے، بعض ملا و امام صاحبان بچوں کو مساجد میں لانے سے منع کرتے ہیں اور وجہ یہی بیان کرتے ہیں کہ بچوں کی وجہ سے نماز میں خلل آتا ہے۔ جو ایکا دکا بچے آتے ہیں وہ بھی حد سے زیادہ سنجیدہ ہوتےہیں اور یوں لگتا ہے جیسے ان کا بچپن کہیں گم ہو کر رہ گیا ہے۔
مساجد میں بچوں کو لانا، اُن کے سامنے عبادت کرنا اور دوسرے سنت پورے کرنا اُن کی شخصیت کو بنانے کے لئے بہت اہم ہے۔ بچے سیکھنے کے مختلف مراحل سے گزر رہے ہوتے ہیں، جب بہت چھوٹے ہوتے ہیں تو اُن کو باتیں سکھائی جاتی ہیں، پھر کھانے پینے کے طریقے اور آہستہ آہستہ زندگی کے دوسرے اُمور۔ کچھ بزرگ فرماتے ہیں کہ بچوں کو مساجد میں نہیں لانا چاہئے، اگر ان کو نہیں لائیں گے تو پھر بچے کیسے سیکھیں گے اور کس طرح اُن کو اپنے مذہب، اللہ کی عبادت اور سنتوں کا اہتمام سمجھ آئے گا۔ ماں بچے کو سکھاتی ہے مگر پھر عملی زندگی میں اُن کو پریکٹکل بھی دکھانا پڑتا ہے اور اس معاملے میں میری بڑوں سے گزارش ہے کہ بچوں کو عبادت کے لئے مساجد آنے دیں، ان کو نہ روکیں، ان کے سیکھنے سکھانے کے مراحل کو صرف چھوٹی چھوٹی شرارتوں کی وجہ سے مت روکیں۔بچوں کو سکھائیں اور اُن کو سیکھنے کے مواقعیں فراہم کریں۔ ماں کی گود بچے کی اولین درسگا ہ ہوتی ہے جہاں سے تعلیم و تربیت کا آغاز ہوتا ہے۔ جس گھر میں ماں نماز پڑھتی ہو اُس کے بچے خود بخود نہ سمجھتے ہوئے بھی نماز پڑھنے کے عمل کو اپنا لیتے ہیں اور جب بھی گھر والے نماز پڑھتے ہیں وہ بھی پڑھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح سے تھوڑے بڑے بچوں کو باقاعدہ مساجد میں بڑوں کے ساتھ بھیجنا چاہئے۔ بچپن کی سیکھی ہوئی چیزیں اور عادتیں تا عمر انسان کی شخصیت کا حصہ ہوتی ہیں۔ جدید سہولیات، ٹی وی، انٹرنیٹ اور دیگر زرائے اب گھر گھر میں بہ آسانی دستیاب ہیں اور ہمارے زیادہ تر بچے انہی ذریعوں سے تربیت پا رہے ہوتے ہیں۔ بچوں کی باقاعدہ تربیت ہونی چاہئے اور بڑے اپنی موجودگی میں ان سہولیات کو استعمال کرنا سکھائیں۔اب یہ ہمارے بڑوں اور والدین پر منحصر ہے کہ وہ بچوں کی تربیت اصلاحی انداز سے کرتے ہیں یا بے پرواہ ہوکر خود رو پودوں کی طرح اپنے بچوں کوچھوڑ کر جھاڑ جھنکار کی طرح بڑا کرتے ہیں یا ان کی تراش خراش کرکے تناور درخت بناتے ہیں۔
مساجد میں بچوں کی تعداد بہت کم ہو کر رہ گئی ہے، بعض ملا و امام صاحبان بچوں کو مساجد میں لانے سے منع کرتے ہیں اور وجہ یہی بیان کرتے ہیں کہ بچوں کی وجہ سے نماز میں خلل آتا ہے۔ جو ایکا دکا بچے آتے ہیں وہ بھی حد سے زیادہ سنجیدہ ہوتےہیں اور یوں لگتا ہے جیسے ان کا بچپن کہیں گم ہو کر رہ گیا ہے۔
مساجد میں بچوں کو لانا، اُن کے سامنے عبادت کرنا اور دوسرے سنت پورے کرنا اُن کی شخصیت کو بنانے کے لئے بہت اہم ہے۔ بچے سیکھنے کے مختلف مراحل سے گزر رہے ہوتے ہیں، جب بہت چھوٹے ہوتے ہیں تو اُن کو باتیں سکھائی جاتی ہیں، پھر کھانے پینے کے طریقے اور آہستہ آہستہ زندگی کے دوسرے اُمور۔ کچھ بزرگ فرماتے ہیں کہ بچوں کو مساجد میں نہیں لانا چاہئے، اگر ان کو نہیں لائیں گے تو پھر بچے کیسے سیکھیں گے اور کس طرح اُن کو اپنے مذہب، اللہ کی عبادت اور سنتوں کا اہتمام سمجھ آئے گا۔ ماں بچے کو سکھاتی ہے مگر پھر عملی زندگی میں اُن کو پریکٹکل بھی دکھانا پڑتا ہے اور اس معاملے میں میری بڑوں سے گزارش ہے کہ بچوں کو عبادت کے لئے مساجد آنے دیں، ان کو نہ روکیں، ان کے سیکھنے سکھانے کے مراحل کو صرف چھوٹی چھوٹی شرارتوں کی وجہ سے مت روکیں۔بچوں کو سکھائیں اور اُن کو سیکھنے کے مواقعیں فراہم کریں۔ ماں کی گود بچے کی اولین درسگا ہ ہوتی ہے جہاں سے تعلیم و تربیت کا آغاز ہوتا ہے۔ جس گھر میں ماں نماز پڑھتی ہو اُس کے بچے خود بخود نہ سمجھتے ہوئے بھی نماز پڑھنے کے عمل کو اپنا لیتے ہیں اور جب بھی گھر والے نماز پڑھتے ہیں وہ بھی پڑھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح سے تھوڑے بڑے بچوں کو باقاعدہ مساجد میں بڑوں کے ساتھ بھیجنا چاہئے۔ بچپن کی سیکھی ہوئی چیزیں اور عادتیں تا عمر انسان کی شخصیت کا حصہ ہوتی ہیں۔ جدید سہولیات، ٹی وی، انٹرنیٹ اور دیگر زرائے اب گھر گھر میں بہ آسانی دستیاب ہیں اور ہمارے زیادہ تر بچے انہی ذریعوں سے تربیت پا رہے ہوتے ہیں۔ بچوں کی باقاعدہ تربیت ہونی چاہئے اور بڑے اپنی موجودگی میں ان سہولیات کو استعمال کرنا سکھائیں۔اب یہ ہمارے بڑوں اور والدین پر منحصر ہے کہ وہ بچوں کی تربیت اصلاحی انداز سے کرتے ہیں یا بے پرواہ ہوکر خود رو پودوں کی طرح اپنے بچوں کوچھوڑ کر جھاڑ جھنکار کی طرح بڑا کرتے ہیں یا ان کی تراش خراش کرکے تناور درخت بناتے ہیں۔
بہت اچھی بات کی آ نے ۔ ۔ بچوں کی تربیت بہت صبرآزما کام ہے ۔ ۔ ایسے ہی بچوں کی چھوٹی چھوٹی نادانیاں حوصلے سے برداشت کرکے ان کو سکھانا ضروری ہے ۔ ۔
ReplyDelete