نریندر دارمودر داس وہ شخص ہے جس نے اپنے گھر کے باہر لکھا تھا" كُتا اندر آسكتا ہے ليكن پاكستانى نہيں"
نريندر مودى كا اس فقرے كواپنے گهر كے باہر لكهنےكا مطلب صرف اور صرف پاكستان اور اسلام سے نفرت كا اظہارتها بهارتى اصلاً بهارتى جنتا ميں يہ تاثُر پهيلانےكى حكمت عملى تهى كہ نريندر مودى پاكستان اور اسلام دشمنى ميں بال ٹهاكرے سے آگے نہيں تو پیچھے بهى نہيں.
دوسرى بات يہ كہ پاكستان سے بلا ضرورت كوئى بهارت جائے گا كيوں ؟ اور اگر كسى كام سے چلا بهى جائے تو وہاں جاكر نريندر مودى كے گهر ميں كيا كرنا؟ غرض يہ فقره بهارتى انتہا پسندوں اور قوم پرست حلقوں كى حمایت حاصل كرنے كيلئےاستعمال كيا گياتها اوريہ ايک سياسى شو شا تها كيونكہ اب اس كے بر عكس نريندر مودى نے بين الاقوامى سطح پر اپنے آپ اور اپنے ملک كو جمہورى ستون ثابت كرنے كيلئے وزير اعظم نواز شريف صاحب كو حلف بردارى تقريب ميں شركت کیلئے دعوت نامہ ارسال كرديا ہےیعنی اپنے تهوكے كو خود چاٹ ليا ليكن
"بنيے كا بچہ كچھ ديكھ كر ہى گرتا ہے"
شيخ رشيد اور حافظ سعيد كے استخارے كے مطابق وه نواز شريف كا بهارت "ياترا" قومى غيرت پر قدغن سمجھتے ہيں جبكہ كچھ حلقے خارجہ پاليسيوں اور جمہوريت كى استحكام كى طرف پيش رفت گردانتے ہيں.كچھ سياسى و سماجى حلقوں كا كہنا ہے كہ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف ہندوستان میں نریندر مودی کی دعوت پر نہ جائیں اس سے مقبوضہ کشمیر میں غلط پیغام جائے گا۔ حکومت پاکستان ہندوستان کے ساتھ ہر طرح کی بات چیت اور تعلقات کو مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط کرے۔
ان حلقوں سےايک اور بات بهى سننے ميں آئى ہے كہ نریندر مودی نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ دفعہ 370 کو ختم کر کے کشمیر میں مسلم تشخص کو ختم کریں گے اس سے اور ممكن ہے اس سے مزيد کشیدگی بڑھے گی اندازه ہے كہ نریندر مودی طاقت کے زور پر تحریک آزادی کشمیر کو کچلنے کی کوشش کررہے ہيں اور اس سے اور بھی حالات خراب ہوں گے، مقبوضہ کشمیر میں مظالم میں اضافہ ہو گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان حالات سے قبل ہی صف بندی کی جائے۔
نريندر مودى كى ماضى كو ديكهتےہوئے يہ تاثر پهيل رہا ہے كہ نريندر كا مسلمانوں كےحقوق بارے بہت تشويش ناک رويہ ہے. نريندر مودى كى كاميابى بهى امريكى تهانيدارى كى ايک كڑى نظر آرہى ہے كيونكہ ايک طرف افغانستان ميں اينٹى پاكستان "عبدالله عبدالله" كو كامياب كرانا اور دوسرى طرف اينٹى پاكستان نريندر مودى كى كاميابى تشويش كن بدلاؤ اور قابل غور پہلو ہيں.
ان دونوں اطراف سے اينٹى پاكستان سرگرميوں كے خطرے كے پيش نظر بہت سى مصلحت كرنى پڑى گى.
لہٰذا حالات كى باريكى كو مد نظر ركهتے ہوئے نواز شريف نے مودى سركار كى حلف بردارى تقريب ميں شركت كے ساتھ ساتھ بهارت ماتا كو تحفہ دينے كا فيصلہ كرليا اور ملک بهر سے 294 بهارتى قيدى رہا كردئے اگر چہ قيديوںکی رہائى قومى حلقوں ميں ايک اضافى مسكا تصور كيا جا رہا ہے ليكن نواز شريف كو يہ ضرورى و ناگزير لگا كيونكہ وہاں جانے سے پہلے اپنے لئے ساز گار ماحول پيدا كرنا عقلمدى و دور انديشى كا مظاہره ہے.
معقول رائے تو يہ ہوگى كہ اگر ہم جمہوريت كے اونٹ كا سودا كر چكے ہيں اور اسى اونٹ كے گلے ميں بےغيرتى كى بلّى كا سودا بهى قبول كرچكے اور اس كے ساتھ ہى ہم اس موذى نظام كو پال بهى رہے ہيں تو جمہوريت كے اُستادوں سے اشير باد لينا كون سى قباحت ہے يوں كہیےكہ جس عہدے پر مودی فائز ھونے جا رہا ہے اس کا احترام کرنا جمہوری روایات کے عین مطابق ہے اور اگر دشمن دعوت دے جس میں خیر کا پہلو ہوتو ٹھکرانے كا سوال كس طرح پيدا ہوسكتا ہے . پاکستان کے سابق صدر مملکت جنرل" ر" پرویز مشرف تو سارک سربراہی کانفرنس میں اپنی نشست سے اٹھ کر واجپائى کے گھٹنے پکڑنے چلا گیا۔ یہاں تو خود پاکستان کے جمہوری وزیر اعظم کو دعوت دی گئى ہے. بس فكر صرف يہ ہورہى كہ وزير اعظم صاحب كو ائير پورٹ پر انسداد پوليو كے قطرے پلائےجائینگےکہ نہیں۔۔۔
تحریر: آصف شہزاد (مینگورہ سوات)۔
Comments
Post a Comment