بہار کی آمد کے ساتھ ہی ملک کے مختلف علاقوں میں جشن بہاراں کے ساتھ ساتھ انواع و اقسام کے پھول پودوں کی نمائش کے ساتھ ہی شہر کی شاہراہوں اور سڑکوں کو بھی سجایا جاتا ہے، جو کہ ایک قوم کی باذوق ہونے کی نشانی ہوتی ہے۔ پاکستان کے دارالخلافہ اور دیگر بڑے شہروں سمیت بہارکی آمد کو بھرپور طریقے سے منایا جاتا ہے۔ لاہور شہر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں کی تاریخی ثقافت اور عمارات و نوادرات کے ساتھ ساتھ یہاں شہر کی جدید سجاوٹ بھی دنیا کو اپنی طرف متوجہ کئے بغیر نہیں رہتی۔ جہاں لاہور کی صوبائی حکومت تاریخی ورثے کو محفوظ کرنے کی کوششیں کررہی ہے وہاں نئی آبادی کو بھی خوبصورتی اور قرینے سے آباد کر رہی ہے جس کا اندازہ یہاں کی نئی بنائی گئی اور پرانی سڑکوں کی دوبارہ بحالی سے کیا جاسکتا ہے۔لاہور شہر کے دیگر مقامات میں یہاں کے نہر کی دورویہ سڑک بھی ہے جس کو جدید طریقے سے بحال کرکے نہ صرف شہر میں آمد ورفت کے لئے سہولت دی گئی ہے بلکہ اس نہر اور اس کے کنارے سڑکوں کے اطراف میں سبزے، درخت، پودوں اور پھولوں کی ایک خاص ترتیب اور سجاوٹ نے اس کے حسن کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ بہار کی آمد کے ساتھ ہی اس نہر اور سڑک کے کنارے بہار میں خاص طور پر رنگ و روشنیوں سے سجاکر اس کی خوبصورتی میں اور بھی اضافہ کردیا جاتا ہے۔ اس سال بھی لاہور سمیت فیصل آباد کی بھی کینال روڈ کو خوبصورت پھولوں، فلوٹس اور روشنیوں سے سجایا گیا ہے جو کہ ہر گزرنے والے کو دعوت نظارہ دے رہے ہیں اورگزرنے والے تھوڑی دیر کے لئے اپنی تھکان کو بھول کر خوبصورتی سے لطف اندوز ہوئے بغیرنہیں رہتے ہیں۔
خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت نے بھی پشاور کو دوبارہ باغوں کا شہر بنانے اور یہاں کی عوام کو بہتر شہری سہولیات فراہم کرنے کے لئے پشاورکی خوبصورتی کی بحالی سے آغاز کیا ہے اور پہلے مرحلے میں "پشاور ماس ٹرانزٹ" پروگرام کے تحت لوکل ٹرانسپورٹ کی بہتر سروس اور شہر میں موجود سڑکوں کی ابتر حالت کو بہتر بنانے کے منصوبے سے آغاز کیا ہے۔ اس تمام منصوبے میں حکومت نے عام عوام کو بھی شامل کیا ہے اور تجاویز بھی مانگی گئی ہیں جبکہ لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی سمیت ترکی کی شہری ترقیاتی انتظامیہ سے بھی انتظامی اُمور اور شہری ترقیاتی پروگرامز میں بھی مشاورت اور تکنیکی مدد حاصل کررہے ہیں جو کہ یہاں کی حکومت اور قابل افسران کی پشاور سمیت صوبے کی ترقی کے لئے کوششوں میں دلچسپی کی زندہ مثال ہے۔ اسی حوالے سے ایک تجویز پیش خدمت ہے کہ اگر پشاور میں بھی لاہور کینال بینک روڈ کی طرز پر یہاں شہر میں موجود نہروں کے کنارے سڑکوں کو وسیع کرکے اُن کے اردگرد درخت، سبزہ اور پھول پودے لگا کر اُن کو اچھے طریقے سے بحال کردیا جائے تو بہت اچھا اقدام ہوگا۔ پشاور کے شمال مغرب میں واقع "وارسک ڈیم" سے کئی نہریں نکال کر پشاور کی دیہی علاقوں کو سیراب کرنے کے لئے نکالی گئی ہیں جن میں سے کئی ایک پشاور شہر کے اندر سے ہوکر گزرتی ہیں جن میں دو نہریں ایسی ہیں جن کے آس پاس کافی زمین موجود ہے جس کو بغرض دورویہ سڑک تعمیر کیا
خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت نے بھی پشاور کو دوبارہ باغوں کا شہر بنانے اور یہاں کی عوام کو بہتر شہری سہولیات فراہم کرنے کے لئے پشاورکی خوبصورتی کی بحالی سے آغاز کیا ہے اور پہلے مرحلے میں "پشاور ماس ٹرانزٹ" پروگرام کے تحت لوکل ٹرانسپورٹ کی بہتر سروس اور شہر میں موجود سڑکوں کی ابتر حالت کو بہتر بنانے کے منصوبے سے آغاز کیا ہے۔ اس تمام منصوبے میں حکومت نے عام عوام کو بھی شامل کیا ہے اور تجاویز بھی مانگی گئی ہیں جبکہ لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی سمیت ترکی کی شہری ترقیاتی انتظامیہ سے بھی انتظامی اُمور اور شہری ترقیاتی پروگرامز میں بھی مشاورت اور تکنیکی مدد حاصل کررہے ہیں جو کہ یہاں کی حکومت اور قابل افسران کی پشاور سمیت صوبے کی ترقی کے لئے کوششوں میں دلچسپی کی زندہ مثال ہے۔ اسی حوالے سے ایک تجویز پیش خدمت ہے کہ اگر پشاور میں بھی لاہور کینال بینک روڈ کی طرز پر یہاں شہر میں موجود نہروں کے کنارے سڑکوں کو وسیع کرکے اُن کے اردگرد درخت، سبزہ اور پھول پودے لگا کر اُن کو اچھے طریقے سے بحال کردیا جائے تو بہت اچھا اقدام ہوگا۔ پشاور کے شمال مغرب میں واقع "وارسک ڈیم" سے کئی نہریں نکال کر پشاور کی دیہی علاقوں کو سیراب کرنے کے لئے نکالی گئی ہیں جن میں سے کئی ایک پشاور شہر کے اندر سے ہوکر گزرتی ہیں جن میں دو نہریں ایسی ہیں جن کے آس پاس کافی زمین موجود ہے جس کو بغرض دورویہ سڑک تعمیر کیا
جاسکتا ہے۔ ایک مین نہر وارسک روڈ کو کراس کرتی ہوئی، شامی روڈ، ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائیٹی، سردار گڑھی،چارسدہ روڈ کو کراس کرتے ہوئے شہر کے درمیان سے گزر کر رنگ روڈ تک چلی جاتی ہے جبکہ دوسری بڑی شاخ نئے تعمیر ہونے والی ہاوسنگ سکیم "ریگی ماڈل ٹاؤن" سے شروع ہوکر ناصر باغ روڈ کے ساتھ ساتھ ہوتے ہوئے پشاور یونیورسٹی کے اطراف کے ساتھ بورڈ بازار اور پھر پشاور کے پوش علاقے "یونیورسٹی ٹاؤن" کے پہلو میں سے ہوتے ہوئے "عمرگل روڈ" جو کہ پشاور صدر کے پاس ہے اور آگے رنگ روڈ کو قطع کرتی ہوئی پشاور کوہاٹ روڈ پر سیفن کے مقام پر مین روڈ سے جا کرملتی ہے۔ ان دونوں نہروں کے دونوں اطراف میں زیادہ ترمقامات پر دورویہ سڑک پہلے سے موجود ہے۔ بجائے مال روڈ اور خیبر روڈ کو بحال کرنے (جو کہ پہلے ہی بہت اچھی حالت میں ہیں اور کینٹونمنٹ بورڈ پشاور کے علاقوں میں ہونے کی وجہ سے بہتر حالت میں ہیں ) ان دونوں نہروں کے
کناروں کو دورویہ کرکے اور خاص کر درخت اور سبزہ لگا کر خوبصورت بنایا جاسکتا ہے۔پشاور میں بڑھتے ہوئے ٹریفک کی وجہ سے میں اڈے سے کارخانوں اور حیات آباد تک کے مرکزی سڑک پر دباؤ بہت زیادہ ہے جو کہ پشاور کی واحد مین روڈ ہے اور درمیان میں فوجی تنصیبات و دفاتر ہونے کی وجہ سے اور بھی مشکلات۔ اگر ان دونوں نہروں کے کناروں کو دورویہ کردیا جائے تو نہ صرف پشاور کی مین سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ کم ہوگا بلکہ لوگوں کو آمدورفت میں بھی آسانی ہوگی اور لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہوکر کینٹ میں سے گزرنے والی سڑک پر فوجی و پولیس کی چیک پوسٹوں پر خوار ہونے کےعذاب سے بھی بچا جاسکے گا۔ اگر حکومت کی نظر میں ایسا منصوبہ پہلے سے ہے تو پھر تجویز یہ ہوگی کہ ہر نئی آبادی /بحالی کے دوران شجر کاری کو مدنظر رکھا جائے اور جو پل، اوور ہیڈ پل، انڈر پاسز بنائے جائیں اُن میں بھی لاہور کی سڑکوں کو سامنے رکھتے ہوئے سبزے اور پھولوں کے لئے گملوں وغیرہ کی مناسب جگہ بھی بنائی جائے۔ اس وقت "اربن پالیسی یونٹ" پشاور شہر میں کئ خوبصورت ترقیاتی پروگرامز کا آغاز کررہی ہے، سڑکوں اور چوراہوں کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ شہر کی مصروف شاہراہوں پر جہاں آبادیاں زیادہ ہیں اور پیدل لوگوں کو سڑک پار کرنے میں دشواری ہوتی ہے وہاں اوور ہیڈ برج بنائے جا رہے ہیں جن میں سے ایک "اسلامیہ کالج" کے پاس تعمیر ہوچکا ہے، دوسرا شاہین ٹاؤن میں زیر تعمیر ہے۔ اسی طرح کا ایک اوور ہیڈ برج اگر پشاور شہر کے مین بس ٹرمنل کے پاس بھی تعمیر کیا جائے تو عوام پر بہت بڑا احسان ہوگا۔ یہاں حال ہی میں تعمیر کیا جانے والا ٹریفک کے لئے اوورہیڈ برج کئی ایک تعمیراتی نقائص کا شکار ہے، جس میں سب سے بڑی غلطی عوام کے لئے مین روڈ کو پار کرنے کی سہولت کا نہ رکھنا ہے، یہاں پر مین روڈ پر ٹریفک کا رش بہت زیادہ ہوتا ہے اور سڑک کے دونوں کناروں پر شہر سے باہر جانے والی گاڑیوں کے اڈے ہیں۔ یہاں پر سڑک پارکرنے میں بہت مشکلات کاسامنا ہوتا ہے خاص کر بچوں، بوڑھوں اور خواتین کے لئے۔ اگر یہاں ترجیحی بنیادوں پر جلد از جلد پیدل سڑک پار کرنے والوں کے لئے اوورہیڈ پل بنا لیا جائے تو اہل پشاور اور شہر میں آنے جانے والے تمام لوگوں پر احسان ہوگا۔ اب چونکہ حکومت خیبر پختونخوا صوبے میں ایک ارب درخت لگانے کے پروگرام کا بھی آغاز کرچکی ہے, اس لئے اُمید ہے کہ پشاور کی سڑکوں کی بحالی اور پشاور ماس ٹرانزٹ پروگرام میں بھی سڑکوں اور نہروں کے کنارے شجرکاری کا خاص خیال رکھا جائے گا کیونکہ بہتر ماحول ہماری اور آنے والی نسلوں کی صحت مند زندگی کے لئے نہایت اہم ہے۔
کناروں کو دورویہ کرکے اور خاص کر درخت اور سبزہ لگا کر خوبصورت بنایا جاسکتا ہے۔پشاور میں بڑھتے ہوئے ٹریفک کی وجہ سے میں اڈے سے کارخانوں اور حیات آباد تک کے مرکزی سڑک پر دباؤ بہت زیادہ ہے جو کہ پشاور کی واحد مین روڈ ہے اور درمیان میں فوجی تنصیبات و دفاتر ہونے کی وجہ سے اور بھی مشکلات۔ اگر ان دونوں نہروں کے کناروں کو دورویہ کردیا جائے تو نہ صرف پشاور کی مین سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ کم ہوگا بلکہ لوگوں کو آمدورفت میں بھی آسانی ہوگی اور لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہوکر کینٹ میں سے گزرنے والی سڑک پر فوجی و پولیس کی چیک پوسٹوں پر خوار ہونے کےعذاب سے بھی بچا جاسکے گا۔ اگر حکومت کی نظر میں ایسا منصوبہ پہلے سے ہے تو پھر تجویز یہ ہوگی کہ ہر نئی آبادی /بحالی کے دوران شجر کاری کو مدنظر رکھا جائے اور جو پل، اوور ہیڈ پل، انڈر پاسز بنائے جائیں اُن میں بھی لاہور کی سڑکوں کو سامنے رکھتے ہوئے سبزے اور پھولوں کے لئے گملوں وغیرہ کی مناسب جگہ بھی بنائی جائے۔ اس وقت "اربن پالیسی یونٹ" پشاور شہر میں کئ خوبصورت ترقیاتی پروگرامز کا آغاز کررہی ہے، سڑکوں اور چوراہوں کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ شہر کی مصروف شاہراہوں پر جہاں آبادیاں زیادہ ہیں اور پیدل لوگوں کو سڑک پار کرنے میں دشواری ہوتی ہے وہاں اوور ہیڈ برج بنائے جا رہے ہیں جن میں سے ایک "اسلامیہ کالج" کے پاس تعمیر ہوچکا ہے، دوسرا شاہین ٹاؤن میں زیر تعمیر ہے۔ اسی طرح کا ایک اوور ہیڈ برج اگر پشاور شہر کے مین بس ٹرمنل کے پاس بھی تعمیر کیا جائے تو عوام پر بہت بڑا احسان ہوگا۔ یہاں حال ہی میں تعمیر کیا جانے والا ٹریفک کے لئے اوورہیڈ برج کئی ایک تعمیراتی نقائص کا شکار ہے، جس میں سب سے بڑی غلطی عوام کے لئے مین روڈ کو پار کرنے کی سہولت کا نہ رکھنا ہے، یہاں پر مین روڈ پر ٹریفک کا رش بہت زیادہ ہوتا ہے اور سڑک کے دونوں کناروں پر شہر سے باہر جانے والی گاڑیوں کے اڈے ہیں۔ یہاں پر سڑک پارکرنے میں بہت مشکلات کاسامنا ہوتا ہے خاص کر بچوں، بوڑھوں اور خواتین کے لئے۔ اگر یہاں ترجیحی بنیادوں پر جلد از جلد پیدل سڑک پار کرنے والوں کے لئے اوورہیڈ پل بنا لیا جائے تو اہل پشاور اور شہر میں آنے جانے والے تمام لوگوں پر احسان ہوگا۔ اب چونکہ حکومت خیبر پختونخوا صوبے میں ایک ارب درخت لگانے کے پروگرام کا بھی آغاز کرچکی ہے, اس لئے اُمید ہے کہ پشاور کی سڑکوں کی بحالی اور پشاور ماس ٹرانزٹ پروگرام میں بھی سڑکوں اور نہروں کے کنارے شجرکاری کا خاص خیال رکھا جائے گا کیونکہ بہتر ماحول ہماری اور آنے والی نسلوں کی صحت مند زندگی کے لئے نہایت اہم ہے۔
درجہ بالا تصاویر "ایکسپریس ٹربیون " سے لی گئی ہیں۔
Comments
Post a Comment