مینگورہ میں پانی کی کمی یا پھر؟


ہم بفضل تعالیٰ باقاعدگی کے ساتھ پانی کی مروجہ فیس ادا کرنے والوں میں سے ہیں، لیکن بلدیہ مینگورہ کا پانی جہاں خراب ترین ہوتا ہے وہاں مقدار اور باقاعدگی میں بھی قابل افسوس ہوتا ہے۔ بلدیہ مینگورہ میں جہاں انتظامی کمزوری یا مجبوری، اعتدال سے زیادہ ہے وہاں دوسرے عوامل بھی مینگورہ سوات میں پانی کی مقدار اور معیار میں کمی کے ذمہ دار ہیں۔ ان ذمے دار عناصر کو ہم کچھ یوں بیان کرسکتے ہیں:۔

عوام میں حرام خوری کا رواج اور خودسری
محکمہ پٹوار کا ناقص نظام
بلدیہ میں ٹھیکہ داروں کا مضبوط قبضہ
واپڈا
بلدیہ کی مالی کمزوریاں
پانی کی تقسیم میں بے قاعدگیاں
نامعقول عمارات اور آبادیاں
کئی ایک اور وجوہات بھی۔۔۔
خدا کے بڑے انعامات میں عادل، قابل اور عوام دوست حکومت سرفہرست ہے جبکہ خراب طرز حکمرانی خدا کے عذابوں میں سے بڑا عذاب گردانا جاسکتاہے۔ اگر حکومتی کارندے مغلوب ہوں یا مجبور ہوں، نالائق ہوں یا کرپٹ ہوں، وہ متعلقہ معاشرے کے لئے مشکلات بلکہ تباہی کے اسباب پیداکرتے ہیں۔ وطن عزیز کی مشکلات میں ان عوامل کا بڑا کردار ہے۔ مکمل طور پر خودمختار ہونے کے باوجود محکمہ برقیات میں اچھے افراد کی بڑی کمی ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ بغیر کسی دشمن سے جنگ کے واپڈا کے ہاتھوں وطن عزیز تباہی و بربادی کا سامنا کررہا ہے۔
اچھے معاشروں میں قوانین اور اُصولوں کے تحت زندگی گزاری جاتی ہے ۔ البتہ جنگل کی زندگی میں جس کی لاٹھی اُس کی بھینس والا قانون چلتا ہے۔ بدقسمتی سے سوات میں حکموت کی رٹ نہایت محدود اور ناقص ہے۔ یہاں خدا کا قانون چلتا ہے اور نہ حکومت کا۔ بس جس کا زور ہوتا ہے، اُس کی بات مانی جاتی ہے۔ سوات میں پانی کی کمی کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ بے ضابطہ اور اُونچے مقامات پر تعمیرات بھی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پہاڑوں کے دامنوں کا تعین کرکے وہاں سے اُونچائی پر تعمیرات پر مکمل اور مستقل پابندی لگا دے۔ یہ پابندی مینگورہ سیدوشریف کے میونسپل ایریاز پر ہو۔ اُونچائی پر زمین کی قیمتیں کم ہوتی ہیں۔ عوام اسی لالچ میں آکر مستقل تنگ دستی کا شکار ہوجاتے ہیں اور بلدیہ کے لئے بھی مسائل پیدا کردیتے ہیں۔ اگر تعمیراتی علاقے محدود کرواکر باقی ماندہ پہاڑوں پر جنگلات اُگائے جائیں تو ان سے بے شمار فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔لیکن اس کام میں حکومت اور عوام دونوں مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کررہے ہیں۔
بلدیہ کی بڑی غلطی یہ بھی ہے کہ یہ تعمیراتی آبادی کے لئے ضابطہ نافذ نہیں کرتی۔ آخر کتنی اُونچائی پر لوگ گھر بنائیں گے اور کس طرح بلدیہ اُن تک پانی پہنچائے گی؟ پانی کے علاوہ دوسری خدمات مثلاً صفائی کے معاملات، تعلیم، صحت، فائر بریگیڈ، بجلی اور مارکیٹ کی خدمات۔ یہ تمام سہولیات ایسی خودسر آبادیوں میں پہنچانا بہت مشکل اور بہت مہنگا پڑتاہے۔ سوات انتظامیہ اور بلدیہ مینگورہ کے لئے سخت اور بے رحم فیصلے اور اقدام ضروری ہیں، ورنہ عوام اپنی خودسریوں کی وجہ سے کسی بھی وقت سخت عذاب میں آسکتے ہیں۔
فی الوقت کئی ایک پانی کی ٹینکیاں بہت اُونچائی پر بنی ہیں، جنہیں بھروانے پر بہت زیادہ خرچ آتا ہے اور موٹروں پر دباو کی وجہ سے جلدی خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ پھر اتنی اُونچائی پر ذخیرہ شدہ پانی جہاں تیز رفتاری سے ضائع ہوتا ہے وہاں پائپوں کو بھی جلدی توڑتا ہے۔ غلام اقوام کی موروثی حرام خوری ہم میں آج بھی ہے، بے شمار افراد نے جگہ جگہ بلدیہ کے پائپوں سے غیر قانونی کنکشن لئے ہوے ہیں اور پانی کو بے دریغ ضائع کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ بہت سارے کلمہ پڑھنے والوں نے پمپ لگائے ہیں اور ہم جیسے عام لوگوں کے استعمال کا پانی کھینچتے نہیں بلکہ چوس لیتے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں،لیکن کام ایسا کرتے ہیں جو کافر بھی نہیں کرتے۔ محراب و منبر بھی اس حقیقت پر خاموش ہیں کہ حرام پانی سے وضوناقص اور نماز ناقابل قبول ہوتی ہے۔
واپڈا اب ایک کھلے متحارب دشمن کا کردار ادا کرنے لگا ہے۔ اگر اس کے بعض ملازمین (زیادہ تر) بجلی نہ چرائیں تو عوام یقیناًبجلی نہیں چرائیں گے۔ اگر یہ لوگ بجلی چوروں کی پشت پناہی نہیں کریں گے تو کسی کو بھی بجلی چرانے کی جرات نہیں ہوگی۔ واپڈا اور بہت سارے اداروں کے کردار سے عام شہری کو مایوسی ہوتی ہے اور یہ یقین ہوجاتا ہے کہ ہم آزادی کے قابل لوگ نہیں۔ انجینئر ، ڈاکٹر وغیرہ پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ ہوتے ہیں۔ جب ان کی اکثریت غیر ذمہ دار، خودغرض اور قانون شکن ہوجاتی ہے تو پھر عام ملازمین سے اچھائی کی توقع عبث ہے۔
مینگورہ واپڈا کی مخصوص کارکردگی بھی پانی کی دستیابی پر اثر انداز ہوتی ہے۔
بلدیہ مینگورہ نے پتہ نہیں کس قانون کے تحت اپنے تقریباً تمام شعبے ٹھیکہ داروں کے حوالے کر دیئے ہیں اور یوں یہ ادارہ ان کروڑوں روپیہ سے محروم ہوجاتا ہے جو ٹھیکہ داروں کی جیبوں میں چلا جاتاہے۔ جب وسائل نہ ہوں تو مسائل کا حل نہیں ہوتا۔ بلدیہ مینگورہ اور ضلعی انتظامیہ مل کر حالات کو سدھارنے کی مخلصانہ کوششیں تسلسل کے ساتھ کریں اور پہلے خود قانون کی پیروی کریں اور پھر عوام سے سختی کے ساتھ تمام تر قوانیں کی پیروی کروائیں اور حالات کر بہتر کریں ورنہ دونوں یعنی عوام اور حکام قدرت کے سخت تادیب کا انتظار کریں جو زیادہ دور نہ ہوگی یہ قدرت کا اُصول ہے کہ جب ایک قوم اجتماعی طور پر گناہگار ہوجاتی ہے تواُسے صفحہ ہستی سے مٹادیا جاتا ہے۔

Comments