ہم آئے دن سنتے چلے آتے ہیں کہ فلاں جگہ چوری ہوئی فلاں گاڑی یا زیور یا کوئی دوسری چیزیں چوری ہوگئیں۔ جیسے جیسے زمانہ ترقی کرتا جا رہا ہے چوری کی واردات کرنے کے طریقہ کار اور چوری کرنے والی اشیاء کی نوعیت بھی بتدریج بدلتی جارہی ہیں۔ انہی قیمتی چیزوں میں آئیڈیاز کی چوری، تصاویر، آڈیبھوویڈیوز کی چوری اور تحاریر و تصانیف کی چوری بھی شامل ہوتی جارہی ہیں بلکہ سب سے زیادہ چوری آج کل انہی چیزوں کی ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا، ٹی وی، اخبار اور ریڈیو کی آمد کے بعد لوگوں میں تخلیقی کام کرنے کا رجحان بہت بڑھ رہا ہے کیوںکہ آپ بہت کم وقت اور خرچ میں اپنا کام بہت سارے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ اور اسی پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے تخلیقی کام کرنے والے افراد اپنا کام شیئر کرتے ہیں مگر وہ چوری ہوجاتا ہے۔
انسان چوری کیوں کرتا ہے؟ یہ ایک بہت اہم سوال ہے، اس کی کافی وجوہات ہیں جن میں انسانی نفسیات کا عمل دخل بہت زیادہ ہے۔ کوئی مالی فائدے کے لئے چوری کرتا ہے، کوئی مشہور ہونے کے لئے چوری کرتا ہے اور کوئی بس ویسے ہی چوری کرتا ہے۔ ڈاکٹراور نفسیاتی امراض کے ماہرین اور بھی بہت ساری وجوہات بیان کرتے ہیں۔ میرے خیال میں جب کسی کو کوئی چیز پسند آتی ہے اور وہ اُس کی پسندیدگی کے معیار کی حدود کو عبور کرنے لگتی ہے تو وہ اس کو حاصل کرنے کی اپنی سعی کرتا ہے۔ اگر مثبت سوچ و فکر کے مالک ہیں تو اسی کام سے متاثر ہوکر اپنا نیا کام اس سےبھی بہتر طریقے سے کرسکتا ہے مگر چونکہ انسان بہت کمزور ہے اس لئے بہت سارےمعاملوں میں وہ آسانی اور جلدی کے لئے چوری کربیٹھتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں "کاپی رائٹس" کے قوانین سختی سے نافذالعمل ہیں، وہاں آپ کسی کے تخلیقی کام کو بغیر اجازت کے استعمال نہیں کرسکتے۔ ہماری طرف بھی کاپی رائٹس کے قوانین موجود ہیں مگر بدقسمتی سے جیسے ہم عوام باقی قوانین کا احترام نہیں کرتے ویسےہی کاپی رائٹس کے قوانین کو تو سرے سے ملحوظ خاطر ہی نہیں لاتے۔ میرے بہت سارےدوست احباب بہت اچھا تخلیقی کام کرتے ہیں مگر اُن کے ساتھ ایسا کئی بار ہوا ہے کہ محنت و کرتےاورفائدہ کوئی اور اُٹھا لیتا ہے۔ اسی طرح گزشتہ محرم الحرام کے دوران ہمارے راولپنڈی کے ایک دوست خرم شہزاد نے اپنے بلاگ پر محرم کے دوران راولپنڈی میں پیش آنے والے واقعات کا اپنے بھائی کی زبانی بیان کردہ تفصیلات کو شیئر کیا تھا، اُس وقت ناساز حالات کی وجہ سے ضلعی انتظامیہ نے وہاں کرفیو نافذ کردیا تھا اس لئے میڈیا کوریج نہیں دے پا رہا تھا۔ اس لمحے اُنہوں نے اپنےبھائی کے بیان کردہ واقعات کو اپنے بلاگ پر شیئر کیاجو کہ وہاں کا چشم دید گواہ تھا۔ اس رپورٹ کو کچھ غیر ملکی ٹی وی چینلز نے توڑمروڑ کر پیش کیا اوراُن کی پبلیشنگ اداروں نے اپنے نمائندوں کے نام لگا کر اس کو شائع کیا۔ اسی طرح سب اور بھی بہت سارے لوگوں کے ساتھ ایسے واقعات آئے روز ہوتے رہتے ہیں۔ ہمارے سیدوشریف کے ایک دوست کی تحاریر اور تصاویرکو سوشل میڈیا پرلوگوں نے کاپی کیا، اجازت لینا تو دور کی بات کبھی اخلاقی طور پر اُن کا شکریہ بھی ادا ہیں کیا، اسی وجہ سے وہ اب اپنا کوئی کام شیئر نہیں کرتے۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر بھی لوگ ایک دوسرے کے تخلیقی کام کو اپنے نام سے شیئر کرنے میں زرہ بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ پہلی بار کاپی رائٹس کی بات ڈاکٹر ظہور احمدا اعوان صاحب کے سفر نامہ "امریکہ نامہ" میں پڑھی تھی جب وہ ایک ویڈیو شاپ پر گئے اور ایک ویڈیو خریدنی چاہی تو اُس کے ساتھ اس کے حقوق خریدنے کی رقم بھی ادا کرنی پڑتی ہے کیونکہ وہ رقم آگے اس کے تخلیق کار کو بھی پہنچتی ہے۔ اسی طرح اگر آپ کسی کا میوزک استعمال کرتے ہیں تو اُس کے خالق کی اجازت سے استعمال کرنا ہوتا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں تو اللہ ہی حافظ ہے، اخلاقیات کے کس زینے پر ہیں یہ آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ پچھلے دنوں فیس بک پر وادی سوات کی تصاویر شیئر کرنے والے ایک پیج کے ایدمن کو میسج کیا کہ جناب آپ جس کی تصویر شیئر کرتے ہیں بطورکریڈٹ اُن کا نام بھی کسی کونے کدرے میں لکھ دیں تو مہربانی ہوگی، کام تو اُنہوں نے کرنا ہی نہیں تھا مگر میری طرف سے پیغامات(میسج) بھیجنے کو معطل کردیا۔ یہ ہے ہماری اخلاقی رویہ۔۔۔
اتنی لمبی تمہید باندھنے کے بعد اب میں اپنے غرض کی بات کی طرف آتا ہوں، اکثر دوستوں کے ساتھ گپ شپ اوربحث مباحثوں میں دوسروں کی تحاریر و تصاویر کوبغیر اجازت کے اپنے نام سے استعمال کرنے یا شائع کرنے کی باتیں ہوتی رہتی ہیں کہ میری فلاں چیز وہاں بغیر میرے نام کے یا کسی اور کے نام کے ساتھ شائع ہوگئی یا کسی نے میرےکام کو یا آئیڈیا کو چوری کیا۔ ایسی باتیں سن سن کر مجھے بھی ایک قسم کی احساس کمتری ہونا شروع ہوگئی تھی، دل بہت کررہا تھا کہ کاش میں بھی کبھی اس قابل ہوں کہ ایسی بات کرسکوں، لیکن اتنی قسمت ہماری کہاں۔ قدرت کو ہم پر بھی رحم آگیا اور ہماری یہ بچگانہ خواہش بھی پوری ہونے چلی، پچھلے دنوں ایک تقریب میں ایک رسالہ ہاتھ لگا، گھرآکر اس کو پڑھنے کے لئے بیٹھا تو فہرست مضامین میں سے ایک مضمون پرنظرپڑی جو کچھ جانی پہچانی سی لگی، عنوان تھا "زندہ دیواریں" کچھ سینکڈز کےتوقف کے بعد یاد آیا کہ اس عنوان سے تو میں نے بھی قادر بخش فارمز فیصل آباد کے جناب طارق تنویر صاحب کے عمودی باغبانی کے متعلق اپنے بلاگ "ن والقلم" کے 8ستمبر 2013کی پوسٹ میں لکھا تھا۔ عنوان کے ساتھ مصنف کے نام کے ساتھ "کنول عدنان" کا نام دیکھا تو تجسس پیدا ہوا کہ شاید اُنہوں نے بھی اسی موضوع پر لکھا ہوگا۔ جب جلدی جلدی سارا مضمون پڑھا تو حیرانی ہوئی کہ میرا سارے کا سارا مضمون لفظ بہ لفظ وہاں موجود تھا ایک لفظ کی کمی بیشی نہیں کی گئی تھی۔ پہلے تو تھوڑا سا افسوس ہوامگر جب اطمینان سے سوچا تو بہت خوشی محسوس ہوئی۔ میں رہا ایک طفل مکتب اور کہاں میرے بلاگ کا ایک پوسٹ ایک رسالے میں چھپے؟ یہ بہت بڑی بات ہوتی ہےکہ آپ کی تحریر کو کوئی پسند کرے ۔ پہلے تو میں محترمہ کنول عدنان کا شکریہ ادا کروں گا کہ اُن کو میرا مضمون اتنا پسند آیاکہ اپنےنام سے اس طرح سے شائع کیا کہ ایک لفظ کی تبدیلی بھی نہیں کی اور اس سے بھی زیادہ خوشی اس بات کی ہوئی کہ ایک اور میگزین نے اُس اخبار میں میرا مضمون (محترمہ کنول عدنان کے نام سے )دیکھ کر پسند کیا اور اپنے ماہنامہ میں اس کو شامل کیااُنہوں نے تواس مضمون کو کنول عدنان کے نام سے ہی پڑھا تھا اس لئے اسی نام کے ساتھ شائع کیا مگر محترمہ کنول عدنان نے شاید مجھے اس لائق نہیں سمجھا کہ پہلی بار جب اس کو اپنے نام سے شائع کررہی تھیں تو ایک کونےمیں میرا یا میرے بلاگ کا بھی ذکر کرہی دیتیں، خیر یہ اُن پر منحصر ہے۔
بات کرنےکا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ کو کسی کی کوئی تحریر، تصوری، ویڈیو، آڈیو یا کوئی اور تخلیقی کام پسند آئے اور آپ اُس کو استعمال کرنا چاہیں تو یا تو اُن سے اجازت لیں اور اگر اجازت لینا مشکل ہو تو پھر تخلیق کاریا مصنف کاحوالہ ضرور دیں۔ کیونکہ جب کوئی کچھ تحریر کرتا ہے یا کوئی اور تخلیقی کام کرتا ہے تو وہ کام اُس کے لئے ایسا ہوتا ہے جیسے ایک ماں کے لئے اُس کا بچہ، اگر کوئی ماں سے اُس کا بچہ چھین لے تو اُس کو بہت تکلیف ہوتی ہے ہاں البتہ اگر یہی بچہ کسی دوسری جگہ میں اپنے والدین کے نام سے پہچانا جائے تو والدین اس پر ناز کرتے ہیں اور اُس بندے کی قدر بھی بڑھ جاتی ہے جو اُس کے بچے کو ایک حیثیت عطاء کردیتا ہے۔
ایسی باتیں سن سن کر مجھے بھی ایک قسم کی احساس کمتری ہونا شروع ہوگئی تھی، دل بہت کررہا تھا کہ کاش میں بھی کبھی اس قابل ہوں کہ ایسی بات کرسکوں، لیکن اتنی قسمت ہماری کہاں
ReplyDeleteہا ہا خوب کہی اور آپ کی خوشی تو دیدنی ہے
لیکن کنول جیسوں کو کہاں شرم آنی
نعیم خان با لکل آپ نے ٹہیک لکہا۔۔۔۔۔ مادی چیز چوری ہونے سے زیادہ تخلیقی کام چوری ہونے سے دل دکتا ہے
ReplyDeleteکوئی ہمیں بھی چرالے
ReplyDeleteہم بھی پڑے ہیں سر راہ :p
بابا فکر نہ کریں، کوئی آپ کو بھی اُڑا لے گا اور پتہ بھی نہ چلے گا۔ بہت جلد آپ کی بھی یہ خواہش پوری ہو جائے گی جب اپنی تحریر کسی اور کے نام سےپڑھیں گے، عجیب سی کیفیت ہوتی ہے اُس وقت۔
ReplyDeleteکوئی ایک کام ڈھونڈیں، یا تو صبر کریں یا موصوفہ کو آپ کی مشہوری کرنے کیلئے مشکور رہیں۔
ReplyDeleteبہرکیف ایسی کسی حرکت سے گھبرا کر لکھنے سے ہاتھ نا کھینچیئے گا۔
میرے ایک جاننے والے فرمایا کرتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو گن کر دس۔ ترپپڑ۔ ٹھونکیں جاوئیں۔ یاد رہے کہ ۔ترپپڑ۔ لفظ پہ انکا بہت اصرار ہے ۔ کیونکہ بقول انکے ۔جوتا - ترپپڑ ۔کے مقابلے میں نہائت سہل سزا ہے۔
ReplyDeleteبہر حال ۔ میں یہاں بھی یہی عرض کرونگا کہ یاسے سبھی واقعات میں متعلقہ میگزین کو آگاۃ کریں اور حوالہ بھی دیں تانکہ مکمل چھان بین کے بعد اگلے شمارے میں وہ ایک تردید جاری کرے اور اصل صورتحال بیان کرے۔ اگر مزکورہ ادار یوں نہ کرے تو اسے قانونی چارہ جوئی کی دہمکی دیں ۔ مان جائے گا۔
یہ اس لئیے بھی ضروری ہے ۔ کہ یوں جعلی لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو ۔ اور ایک تخلیق کار کو اسکے نام کے اساتھ چھپی اسکی تحریر ۔ کام ۔ یا کارنامہ دیکھ کر اسے حوصلہ ہو کہ اس کے کام کی تعریف کی گئی ہے یا کم از کم اسے پسند کیا گیا ہے ۔
اس یوروپی ملک میں جب نئے نئے سی ڈیز اور میموری کارڈز آئے تھے تو ان پہ ایک خاطر خواہ ٹیکس تھا جو تخلیقیوں کو ابھی تک ملتا ہے ۔ جسے ہم لوگ کاپی رائٹس کہتے ہیں اور اس طرح کے کئی ایک دیگر طریقوں سے کاپی رائٹس کی ھٍاظت کی جاتی ہے ۔ بار اور ریسٹورنٹس میں چلنے والے عوامی مقاموں پہ جو ٹی وی ہیں ان پہ بھی اسی طرح کا ایک ٹیکس ہوتا ہے ۔
جاوید گوندل ۔ بارسیلونا ، اسپین
نعیم بھائی ، با با جی کو بتاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ ہو تو چوری ہوتا ہے جناب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے نہیں کہ پلے نہیں دھیلا تے کردی پھری میلہ میلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھائی مبارک ہو ، ہماری تحریریں اس قابل ہیں جو چوری ہوتی ہیں ، شکر ہے اللہ کا ، یہ بھی عمومی پسندیدگی کی سند ہے ، باقی چوروں کو تو حکومت نہیں پکڑ سکی ہم کہاں پکڑ سکیں گے ۔۔۔
ReplyDeleteخان صاحب! چلیں مبارک ہو کہ اسی بہانے اب آپ بھی سلیم بھائی اور مجھ جیسے مظلومین میں شامل ہوچکے ہیں ۔۔۔۔ بحرحال قابل صد لعنت ہے، سرقہ بردار احمقین کا یہ مذموم و مکروہ فعل ۔۔۔۔
ReplyDelete