خبروں کے مطابق سوات کی ضلعی انتظامیہ نے عوام میں ڈینگی کے خلاف آگاہی مہم کے لئے سوات میں کام کرنے والی این جی اوز سے تعاون حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ بقول اُن کے اس مہم پر تقریبآ تیس لاکھ روپیہ تک خرچہ آئے گا۔
اس سلسلے میں بہت ساری تجاویز ہمارے لوگوں کے ذہنوں میں ہونگے اور دینا بھی چاہتے ہونگے مگر بات یہ ہے کہ عوام تک کس طرح ایک بامقصد بیغامِ آگاہی پہنچایا جائے؟ اس سلسلے میں سب سے مؤثر اور سودمند طریقہ کار یہ ہوگا کہ ڈینگی کے خلاف آگاہی مہم کے لئے علماء کرام، مساجد کے پیش امام صاحبان اور تبلیغی جماعت کے اراکان کی خدمات لی جائیں۔ ان حضرات کو دو تین دن کی ورکشاپ میں تربیت دی جائے، ضلع میں موجود ڈاکٹر صاحبان ان معزز افراد کو ضروری تربیت دیں۔ ممبرو محراب کی جو اہمیت ہمارے معاشرے میں ہے اس کی مثال آپ موجودہ حالات سے لگا سکتے ہیں۔ ہماری عوام کسی کی بات مانیں یا نہ مانیں مگر ان معزز افراد کی بات کو ہرگز نہیں ٹالتے، بس ضرورت تھوڑی سی مثبت تربیت کی ہے۔
پچھلی گرمیوں میں جب ڈینگی کے مرض نے تمام ضلع سوات کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا اُس وقت ہر طرف افواہوں کے ساتھ ساتھ بہت ساری ایسی باتیں بھی عوام میں گردش کر رہی تھیں جو کہ بالکل ہی غلط تھیں اُن میں سے سب سے بڑی بات یہ تھی کہ گھروں میں موجود تمام پودوں اور درختوں کو کاٹ دیا جائے تاکہ ڈینگی کا مچھر پرورش نہ پا سکے۔ یہ اور اس قسم کی دیگر باتیں بہت پھیل گئیں تھی اور ہمارے محلے میں موجود کئی افراد نے اپنے گھروں سے پودے ختم کر ڈالے تھے۔ ہمارے ملک اور خاص کر سوات میں پہلے ہی جنگلات اور سبزے کی کمی اور اُوپر سے غلط افواہوں کی وجہ سے لوگوں کو اور بھی اس نعمت سے محروم کیا جاتا ہے حالانکہ درختوں اور پودوں کی اس مچھر سے کوئی واسطہ نہیں ہے بلکہ یہ تازہ پانی میں پلنے والے مچھر ہیں۔ ہاں البتہ یہ ضرور بتایا گیا تھا کہ گملوں اور کیاریوں میں پانی کھڑا نہ ہونے دیں جبکہ ہمارے عوام کو کسی اور طرح کا پیغام دیا گیا۔
اگر ضلعی حکومت کے پاس ڈینگی کے خلاف مہم چلانے کے لئے مناسب فنڈز نہیں ہے تو پھر اپنے طریقہ کار کے ساتھ ساتھ علماء حضرات مساجد میں درس کے اوقات، جمعہ کے خطبات کے دوران ڈینگی کے خلاف آگاہی مہم کے بارے میں لوگوں کو ضروری پیغامات پہنچائیں تو یہ ایک بہت مؤثر طریقہ ہوسکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان معزز حضرات کی خواتین جو گھروں میں یا مدرسوں میں بچیوں اور خواتین کو درس وتدریس دینے کا فریضہ انجام دے رہی ہوتی ہیں اُن کے ذریعے بھی یہ پیغام خواتین تک پہنچائیں تو بہت آسانی سے ہم اس موزی مرض پر قابو پاسکتے ہیں کیونکہ ہماری عوام ان معزز حضرات کی بات کو مانتے بھی ہیں اور عمل بھی کرتے ہیں۔
Comments
Post a Comment