چھٹی اُردو عالمی کانفرنس جو کہ 28 نومبر سے 1دسمبر 2013 تک کراچی میں منقعد کی گئی۔ اس کانفرنس کی تفصیلی رپورٹ جرمنی کے قومی اشاعتی ونشریاتی ادارے ڈویچ ویلے کی ویب سائٹ سے یہاں کاپی کرکے پیش خدمت ہے۔
اوریجنل رپورٹ کا لنک یہاں موجود ہے۔
اوریجنل رپورٹ کا لنک یہاں موجود ہے۔
اس موقع پر ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے بھارت سے آئے ہوئے نقاد اور ادیب شمیم حنفی نے کہا کہ اردو زبان جن اقدار کی نشاندہی کرتی ہے، وہ تہذیب اور شعور سے وابستہ ہیں اور گو کہ چار دنوں میں زبان سے وابستہ چیزوں کا احاطہ مشکل تھا مگر اردو زبان سے محبت کرنے والوں کا اجتماع دیکھ کر خوشی ہوئی، خاص طور پر یہاں کے نوجوانوں میں شعر و ادب کے حوالے سے بہت صلاحیتیں ہیں۔ ادب کا آگے بڑھنا خاموش عمل ہوتا ہے، چیخ پکار کے ذریعے نہیں۔ اگر پڑھیں گے تو شخصیت اور معاشرے میں توازن پیدا ہوگا۔ اس سوال کے جواب میں کہ اردو بولنے والے اپنی زبان سے دور کیوں ہوگئے، شمیم حنفی کا کہنا تھا کہ یہ بہت شرم کی بات ہے، یہ ذمہ داری والدین کی ہوتی ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ اچھی انگریزی بولنے والا اردو بولنے والے سے بہتر ہو گا۔ بچے کی اصل تربیت اس کی مادری زبان میں بہتر ہوتی ہے۔ اس کے بعد شاعرہ زہرہ نگاہ نے اردو کی کلاسیکی شاعری سے چیدہ چیدہ کلام پیش کیا۔ شام گئے نئی نسل کے شاعرو ں کا مشاعرہ ہوا۔ بھارتی شاعر مندوب شمیم حنفی کا کہنا تھا کہ کراچی کے نوجوان شعراءکے اشعار سن کر وہ حیران ہو گئے ہیں۔ دوسرے دن کا آغاز معاصر شعری رجحانات پر ہونے والے اجلاس سے ہوا۔ صدارت ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے کی۔ اپنے صدارتی خطاب میں امریکا سے آئے ہوئے اس شاعر اور دانشور نے کہا کہ عہد ساز شاعری عصری رجحانات سے ہی جنم لیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نسائی شاعری کراچی شہر کی پیداوار ہے اور اب بھارتی شاعری میں بھی اس کے اثرات پائے جانے لگے ہیں۔ سیشن کے اختتام پر ممتاز ادیب انتظار حسین نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ادب کے قارئین کا دائرہ محدود ہوتا ہے۔ یہ اخبار کی طرح کا معاملہ نہیں۔ جب کوئی کانفرنس ہوتی ہے تو آپ زیادہ لوگوں سے رابطہ میں آتے ہیں۔ ان میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہوں گے، جو ادب کے دائرے میں آ سکتے ہیں چنانچہ ایسی کانفرنسوں کے فوائد ضرور ہوتے ہیں۔ اس دن ہر چند کہ کئی مختلف اجلاسوں میں کئی نامور ہستیوں کو سپاس پیش کیا گیا، جن میں فرمان فتحپوری، محمد علی صدیقی، محمود واجد، سراج الحق میمن اور داود رہبر بھی شامل تھے لیکن پروگرام کا جو حصہ سب پر بازی لے گیا، وہ تھا معروف ادیب مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ بتائی گئی ایک شام۔ تارڑ صاحب کے علاوہ پروگرام میں ناول نگار عبداللہ حسین اور معروف براڈکاسٹر رضا علی عابدی بھی شریک ہوئے۔ عبداللہ حسین نے کہا کہ تارڑ اپنے جداگانہ اسلوب کی وجہ سے اور اردو کے سفرنامہ نگار اور منفرد ناول نگار کے طور پر اپنے عہد کے بڑے لکھاری ہیں۔ رضا علی عابدی کا کہنا تھاکہ اردو بہت بھولی بھالی زبان ہے، جس کی عمر محض ڈھائی سو سال ہی ہوئی ہے۔ انہوں نی شکوہ کیا کہ بچوں کے لیے اس کانفرنس میں کوئی سیشن نہیں رکھا گیا، ’اس طرح تو بچے ادب سے دور ہو رہے ہیں‘۔ اگلے دن جہاں ذرائع ابلاغ عامہ پر ایک مکمل اجلاس موجود تھا، وہیں اردو اور سندھی کے تاریخی اور لسانی رابطوں پر بھی سیر حاصل گفگتو ہوئی جس میں امر جلیل، نواز علی شوق، امداد حسینی، آغا سلیم، مہتاب راشدی، فہمیدہ ریاض، نور الہد یٰ شاہ اور عبدالقادر جونیجو شریک ہوئے۔ اس دن کی خاص تقریب ’بیادِ جالب‘ میں مایہ ناز شاعر حبیب جالب کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک مہمانِ خصوصی تھے جب کہ صدارت سینیٹر اعتزاز احسن نے کی۔ اُس روز ناول نگار عبداللہ حسین کے ساتھ منائی جانے والی شام میں ناول نگار محمد حنیف شریکِ گفتگو رہے۔ رات گئے بپا ہونے والی محفلِ مشاعرہ میں دنیا بھر سے آئے بڑے بڑے شعرائےکرام نے شرکت کی۔ آخری دن اردو افسانے کی صدی پر ایک تفصیلی اجلاس ہوا، جس کی صدارت انتظار حسین، اسد محمد خان، حسن منظر اور مسعود اشعر نے کی۔ مقررین میں اطہر فاروقی، زاہدہ حنا، ڈاکٹر آصف فرخی اور اخلاق احمد شامل تھے۔ ڈاکٹر جعفر احمد کی کتاب ’چیلنجز آف ہسٹری رائٹنگ اِن ساؤتھ ایشیا‘ کی تقریبِ پذیرائی بھی آخری دن کا اہم اجلاس تھا۔ صدارت بھارتی مؤرخ پروفیسر ہربنس مکھیا اور ڈاکٹر مبارک علی نے کی۔ پروفیسر مکھیا نے کہا کہ تاریخ کو عوام کے نقطہ نظر سے دیکھنا آج کی ضرورت ہے۔ اختتامی اجلاس سے پہلے ایک شام ممتاز اداکار اور کمپیئر ضیاء محی الدین کے ساتھ منائی گئی۔ انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں ابن انشاء کی تحریریں اور افسانے بھی پڑھ کر سنائے۔ اردو کانفرنس کی چہل پہل دیکھ کر اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا تھا کہ اردو کے دلدادہ عہدِ حاضر میں بھی اس زبان کو ہمعصر رکھنے پر گامزن ہیں۔ تصویری جھلکیاں بشکریہ |
Comments
Post a Comment