پروفیسر سیف اللہ خان (مینگورہ، سوات)۔۔۔۔۔۔ یہاں مینگورہ میں ایک نیم سرکاری ادارے سے عوام اور ادارے کے بعض ارکان کی شکائتیں سننے میں آتی ہیں۔ پہلے اُس ادارے میں سابقہ حکومت کے ایک وزیر نے اپنے ووٹروں کو کھپایا۔ اُن سے پہلے یہاں بنوچی بھائیوں کا غلبہ رہا، اب شنید ہے کہ چار سدہ والے بھائی اپنے حق سے زیادہ تعداد میں ملازم کیے گئے ہیں اور جومقامی لڑکے ملازم ہوئے ہیں، وہ مبینہ کرپشن (تعیناتیوں کے لیے ادائیگیوں) کی باتیں کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ اطلاعات؍ شکایات درست ہوں۔ اور وزراء میں سے کسی پر اس ادارے کے حوالے سے بھی الزام ہو، لیکن ہماری تجویز ہے کہ جو لڑکے ملازم کیے گئے ہیں، اُن کی ملازمت کو ختم نہ کیا جائے، بشرط یہ کہ وہ ملازمت کے لیے ضروری شرائط پورے کرتے ہوں۔
اس نیم سرکاری اسکول نے صوبائی حکومت کے اُس حکم کے ماننے سے انکار کیا، جس میں تمام تعلیمی اداروں کو سوات کے فسادات سے متاثرہ بچوں کو فیس وغیرہ کو معاف کرنے کا کہا گیا تھا۔ مجبوراً چند والدین نے عدالت سے رجوع کی اور فیصلہ بچوں کے حق میں ہوگیا۔ اس مقدمہ بازی کے کاغذات نے اس ادارے کے کئی قابل اصلاح معاملات کی نشان دہی کی ہے۔ اب یہ کام فضل حکیم اور دوسرے متعلقہ ایم پی اے کا ہے کہ وہ اُن قابل اصلاح معاملات کو احتیاط سے ملاحظہ کرکے اُن کی درستگی کروائیں۔
پرویز خٹک نے فی الحال ایک اور جماعت کے وزراء پر کلہاڑی چلائی ہے، ممکن ہے کہ اُن کی ’’بدعنوانیوں‘‘ کی اطلاعات تحریک کے جیالوں نے دی ہوں۔ ہمیں یہ بھی خوش گمانی ہے کہ خٹک سرکار نے متعلقہ وزراء کو کرپشن کے الزامات میں اپنی پوزیشنوں کی وضاحت کرنے کے لیے مناسب موقع دیا ہوگا اور مناسب طریقہ کار اپنایا ہوگا۔ ہمیں یہ بھی اُمید ہے کہ تحریک انصاف کے فیلڈ ورکرز (جیالے) اپنے وزراء پر بھی سخت نظریں رکھیں گے۔ اس سلسلے میں ہمارا تجربہ یہ بھی ہے کہ ایک وزیر بذاتِ خود بہت صاف ستھرا اور دیانت دار شخص ہوتا ہے، لیکن اُس کے ما تحت وزارت اور اداروں میں کرپشن میں کمی نہیں آتی۔ اُس کے اپنی پارٹی والے کرپشن کرتے اور کرواتے ہیں، اس صورت حال میں وزیر کو بدعنوان نہیں بلکہ نا اہل کہا جاتا ہے اور بد عنوان کی طرح کسی نا اہل وزیر کو بھی بحال رہنے کا کوئی حق نہیں ملنا چاہیے۔ حکومت کا نصف سال ہونے کو ہے، لیکن ہم کسی بھی شعبے میں قابل قدر مثبت تبدیلی نہیں دیکھتے۔ ایک پشتو ضرب المثل ہے کہ ’’دَ غیرتی زوی ژڑا پہ زانگو کے پیژندے شی‘‘ یعنی بچے کے پنگوڑے میں رونے کی آواز سے اُس کی بہادری کا پتہ چلتا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ حکومت کے ابتدائی مہینوں سے ہی اس کی عمدگی کا پتہ چلنا چاہیے تھا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی سرحدات پر بے انتہاء اسمگلنگ، صوبے سے افغانستان کی طرف مختلف اشیاء کے غیر قانونی یا مشکوک برآمدات اور افغانیوں کے بلا روک ٹوک سفر سے لے کر اسکولوں، اسپتالوں، تھانوں، کچہریوں اور دوسرے دفاتر تک عوام کی مشکلات میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ٹریفک، ٹرانسپورٹ اور مارکیٹ سے وابستہ معاملات میں تو حکومت کے وجود کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ ملاکنڈ ڈویژن میں بے شمار ایسے معاملات ہیں، جو آسانی سے حل کیے جاسکتے ہیں، لیکن اُن پر خاموشی اپنائی گئی ہے۔ خٹک صاحب نے اور نہ اُن کے وزراء ہی نے کبھی یہ زحمت کی کہ خود جاکر فیلڈ میں عوام سے اُن کی مشکلات معلوم کرکے اُن کا ازالہ کریں۔ مقدموں کی بھر مار کی وجہ سے عدالتوں پر کافی بوجھ ہے، جس سے عوام کو بے پناہ مشکلات ہیں۔ اُن کی طرف خٹک سرکار خاموش ہے۔ سیکرٹریٹ کے اندر بعض شعبے ناقص کارکردگی اور سیاسی سفارشوں کے شکار ہیں۔ میرٹ کی بات وہاں بھی نہیں ہے۔ خٹک صاحب کی حکومت کوئی ایسا مکینزم وضع نہ کرسکی، جو چراغ تلے اندھیرے کو دور کرسکے۔ یہ الگ بات ہے کہ مگر مچھ کے آنسوؤں کی نمائش کی جاتی ہے۔
عوام اژدھوں سے نجات چاہتے ہیں۔ انسانی حقوق اور شہری آزادی کے اس دور میں پاٹا اور فاٹا کا کوئی جوازنہیں ہے۔ ان علاقوں سے ایک الگ اور مکمل قوانین کا حامل صوبہ بنانے کے لیے صوبائی اسمبلی کو فوری طور پر ضروری کارروائی کرنی چاہیے، افغانستان کی طرف ہر قسم کی ناجائز تجارت اور انسانی آمد و رفت پر مکمل پابندی ضروری ہے۔ صوبے کے اندر نالائق افسران کو اہم ذمے داریوں سے ہٹانا چاہیے۔ تعلیم کے شعبہ میں خٹک سرکار جو پھرتیاں دکھا رہی ہے، اُن پر سنجیدہ ترین نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ بے شمار مشکلات کی وجہ بجٹ سازی اور طریقۂ کار کی خرابیاں ہیں۔ اُن کی اصلاح کی جائے۔ پنجاب کی طرف غیر معتدل تجارت پر غور کرکے صوبے میں چھوٹے بڑے کارخانے لگوائے جانے چاہئیں۔ اس طرح صوبے میں فروخت ہونے والی جعلی اور مضر صحت اشیاء کے سدباب کی اشد ضرورت ہے۔ اس پر مؤثر کام ہونا چاہیے۔ چوں کہ وطن عزیز کے ساتھ اس صوبے میں بے ایمانیاں شدید ترین ہوگئی ہیں، اس لیے ان کے سدباب کے لیے شرعی قوانین کا عملی نفاذ ضروری ہے۔
اکیلے وزراء کو نکالنے سے شائد کوئی مثبت اور نظر آنے والی تبدیلی سامنے نہ آسکے۔
اس نیم سرکاری اسکول نے صوبائی حکومت کے اُس حکم کے ماننے سے انکار کیا، جس میں تمام تعلیمی اداروں کو سوات کے فسادات سے متاثرہ بچوں کو فیس وغیرہ کو معاف کرنے کا کہا گیا تھا۔ مجبوراً چند والدین نے عدالت سے رجوع کی اور فیصلہ بچوں کے حق میں ہوگیا۔ اس مقدمہ بازی کے کاغذات نے اس ادارے کے کئی قابل اصلاح معاملات کی نشان دہی کی ہے۔ اب یہ کام فضل حکیم اور دوسرے متعلقہ ایم پی اے کا ہے کہ وہ اُن قابل اصلاح معاملات کو احتیاط سے ملاحظہ کرکے اُن کی درستگی کروائیں۔
پرویز خٹک نے فی الحال ایک اور جماعت کے وزراء پر کلہاڑی چلائی ہے، ممکن ہے کہ اُن کی ’’بدعنوانیوں‘‘ کی اطلاعات تحریک کے جیالوں نے دی ہوں۔ ہمیں یہ بھی خوش گمانی ہے کہ خٹک سرکار نے متعلقہ وزراء کو کرپشن کے الزامات میں اپنی پوزیشنوں کی وضاحت کرنے کے لیے مناسب موقع دیا ہوگا اور مناسب طریقہ کار اپنایا ہوگا۔ ہمیں یہ بھی اُمید ہے کہ تحریک انصاف کے فیلڈ ورکرز (جیالے) اپنے وزراء پر بھی سخت نظریں رکھیں گے۔ اس سلسلے میں ہمارا تجربہ یہ بھی ہے کہ ایک وزیر بذاتِ خود بہت صاف ستھرا اور دیانت دار شخص ہوتا ہے، لیکن اُس کے ما تحت وزارت اور اداروں میں کرپشن میں کمی نہیں آتی۔ اُس کے اپنی پارٹی والے کرپشن کرتے اور کرواتے ہیں، اس صورت حال میں وزیر کو بدعنوان نہیں بلکہ نا اہل کہا جاتا ہے اور بد عنوان کی طرح کسی نا اہل وزیر کو بھی بحال رہنے کا کوئی حق نہیں ملنا چاہیے۔ حکومت کا نصف سال ہونے کو ہے، لیکن ہم کسی بھی شعبے میں قابل قدر مثبت تبدیلی نہیں دیکھتے۔ ایک پشتو ضرب المثل ہے کہ ’’دَ غیرتی زوی ژڑا پہ زانگو کے پیژندے شی‘‘ یعنی بچے کے پنگوڑے میں رونے کی آواز سے اُس کی بہادری کا پتہ چلتا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ حکومت کے ابتدائی مہینوں سے ہی اس کی عمدگی کا پتہ چلنا چاہیے تھا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی سرحدات پر بے انتہاء اسمگلنگ، صوبے سے افغانستان کی طرف مختلف اشیاء کے غیر قانونی یا مشکوک برآمدات اور افغانیوں کے بلا روک ٹوک سفر سے لے کر اسکولوں، اسپتالوں، تھانوں، کچہریوں اور دوسرے دفاتر تک عوام کی مشکلات میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ٹریفک، ٹرانسپورٹ اور مارکیٹ سے وابستہ معاملات میں تو حکومت کے وجود کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ ملاکنڈ ڈویژن میں بے شمار ایسے معاملات ہیں، جو آسانی سے حل کیے جاسکتے ہیں، لیکن اُن پر خاموشی اپنائی گئی ہے۔ خٹک صاحب نے اور نہ اُن کے وزراء ہی نے کبھی یہ زحمت کی کہ خود جاکر فیلڈ میں عوام سے اُن کی مشکلات معلوم کرکے اُن کا ازالہ کریں۔ مقدموں کی بھر مار کی وجہ سے عدالتوں پر کافی بوجھ ہے، جس سے عوام کو بے پناہ مشکلات ہیں۔ اُن کی طرف خٹک سرکار خاموش ہے۔ سیکرٹریٹ کے اندر بعض شعبے ناقص کارکردگی اور سیاسی سفارشوں کے شکار ہیں۔ میرٹ کی بات وہاں بھی نہیں ہے۔ خٹک صاحب کی حکومت کوئی ایسا مکینزم وضع نہ کرسکی، جو چراغ تلے اندھیرے کو دور کرسکے۔ یہ الگ بات ہے کہ مگر مچھ کے آنسوؤں کی نمائش کی جاتی ہے۔
عوام اژدھوں سے نجات چاہتے ہیں۔ انسانی حقوق اور شہری آزادی کے اس دور میں پاٹا اور فاٹا کا کوئی جوازنہیں ہے۔ ان علاقوں سے ایک الگ اور مکمل قوانین کا حامل صوبہ بنانے کے لیے صوبائی اسمبلی کو فوری طور پر ضروری کارروائی کرنی چاہیے، افغانستان کی طرف ہر قسم کی ناجائز تجارت اور انسانی آمد و رفت پر مکمل پابندی ضروری ہے۔ صوبے کے اندر نالائق افسران کو اہم ذمے داریوں سے ہٹانا چاہیے۔ تعلیم کے شعبہ میں خٹک سرکار جو پھرتیاں دکھا رہی ہے، اُن پر سنجیدہ ترین نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ بے شمار مشکلات کی وجہ بجٹ سازی اور طریقۂ کار کی خرابیاں ہیں۔ اُن کی اصلاح کی جائے۔ پنجاب کی طرف غیر معتدل تجارت پر غور کرکے صوبے میں چھوٹے بڑے کارخانے لگوائے جانے چاہئیں۔ اس طرح صوبے میں فروخت ہونے والی جعلی اور مضر صحت اشیاء کے سدباب کی اشد ضرورت ہے۔ اس پر مؤثر کام ہونا چاہیے۔ چوں کہ وطن عزیز کے ساتھ اس صوبے میں بے ایمانیاں شدید ترین ہوگئی ہیں، اس لیے ان کے سدباب کے لیے شرعی قوانین کا عملی نفاذ ضروری ہے۔
اکیلے وزراء کو نکالنے سے شائد کوئی مثبت اور نظر آنے والی تبدیلی سامنے نہ آسکے۔
اطلاعات کے مطابق صوبائی حکومت کی اکثریتی پارٹی تحریک انصاف نے اپنے ایک اتحادی جماعت کے دو وزراء کو کرپشن اور ایک کو جعلی ڈگری ہولڈر ہونے کی وجہ سے فارغ کردیا ہے۔ وزراء کی سطح کے افراد کو ہٹانے کے لیے حکومت کے پاس وافر اور ناقابل تردید ثبوت موجود ہوں گے۔ تادمِ تحریر متعلقہ سیاسی جماعت کی طرف سے کوئی احتجاجی بیان یا عدالت سے رجوع کی اطلاع ہم نہ سن سکے ہیں۔ بادی النظر میں یہ ایک اچھا اقدام ہے، ورنہ ہماری سیاسی کلچر میں اس قسم کے اقدام نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس وقت صوبے میں تحریک انصاف کی اکلوتی حکومت ہے۔ معاشرتی، معاشی یا انتظامی اصلاحات میں اس حکومت کا مثبت تبدیلیاں لانے کا خیال ہے اور اپنے اس خیال کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہی۔ اتفاقاً جو وزراء فارغ کر دیے گئے ہیں، اُن کا تعلق تحریک انصاف سے نہیں ہے۔
ہاہاہاہا
ReplyDeleteدا خو زمونگ وال دی۔