سفرنامہ: پشاور سے سوچی براستہ استنبول

جب میں یہ سطور تحریرکررہا ہوں گا تو اس عین اس وقت پشاور پریس کلب میں ایک کتاب کی رونمائی ہو رہی ہوگی۔ میرے ان الفاظ سے شاید آپ اندازہ لگا ہی لیں گے کہ مجھے کتنا افسوس ہے اس تقریب میں شمولیت نہ کرنے کا ، لیکن کیا کریں پرائے نوکر جو ٹھہرے، ڈیوٹی اوقات میں ہم کہاں ایسی خوبصورت تقریبات میں شرکت کر سکتے ہیں۔ صبح جب آفس میں اپنی میز پر کتاب کی رونمائی کا دعوت نامہ دیکھا تودل باغ باغ ہوگیا کہ دہشت گردی ، قتل و غارت اور بے چینی کے اس دور میں پشاور سے کچھ خوش کن خبریں بھی دنیا کو ملیں گی۔ دعوت نامہ میرے لئے تو نہیں تھا لیکن اگر فارغ وقت ہوتا تو ضرور بن بلائے مہمان بن جاتے۔ شادی بیاہ میں تو لوگ بغیر دعوت ناموں کے شرکت کرتے ہیں صرف کھانے پینے کے لئے ، اللہ کا شکر ہے کھانے پینے سے کوئی خاص رغبت نہیں اس لئے اس طرف سے تو میزبان بے فکر رہیں البتہ دل و دماغ کی تسکین کے لئے ضرور آتا۔ خیر یہ تو ڈیوٹی اوقات کے عین درمیان رونمائی ہوئی اور خبر بھی عین 11th Hour پر ، جلدی سے دوسرے دوست کو پیغام بھیجا کہ بھئی میں تو نہیں جا سکتا تو چلا جا، اَب دیکھتے ہیں وہ کیا خبرلے کر آتے ہیں۔ میں تو یہاں چند سطور لکھ کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لونگا ۔ 

آج کل جدید ٹیکنالوجی خاص کر انٹر نٹ اور نئی نئی انٹرٹینمنٹ کی اشیاء کی آمد کے بعد کتابوں میں لوگوں کی کتابوں میں دلچسپی تقریباً ختم ہوتی جا رہی ہے اور پھر رہی سہی کثر مطلوبہ کتابوں کی عدم دستیابی اور زیادہ قیمت پوری کر دیتی ہے۔ اس بارے میں ہمارے ایک عزیز دوست ریاض شاہد صاحب کا ایک بلاگ پوسٹ نظر سے گزرا جس میں اُنہوں نے جدید ٹیکنالوجی کے درمیان کتب کی فروخت، دستیابی ، قارئین کی دلچسپی اور بہت سارے اہم اور دلچسپ اُمور کا تذکرہ کیا ہے اور بہت ہی اچھے مشورے بھی دئے ہیں۔ ارے میں تو بھول ہی گیا کہ بات ہورہی تھی کتاب کی رونمائی کی۔ امجد عزیز ملک سینئر صحافی ہیں اور کسی تعارف کے محتاج نہیں، آج پشاور پریس کلب میں اُن کے سفرنامے "پشاور سے سوچی براستہ استنبول" کی رونمائی ہے۔ یقیناًیہ اُردو ادب اور اُردو کتابوں کے خزانوں میں ایک اچھا اضافہ ہوگا۔ اُمید ہے کہ ان کا یہ سفر نامہ جلد ہی مارکیٹ میں عام قارئین کے لئے مناسب قیمت پردستیاب ہوگا اور اگر اس کی ڈیجیٹل کتاب بھی بنا لی جائے اور قیمت بھی مناسب مقرر کی جائے تو یقیناًپوری دنیا میں بہت سارے لوگ نہ صرف کمپیوٹر بلکہ سمارٹ فونز، ٹبلیٹس اور الیکٹرانک پیڈز وغیرہ پر بھی اس سے مستفید ہونگے۔ اگر یہ سفرنامہ ہاتھ لگ گیا اورپڑھ لیا تو یقیناً باقی تفصیلات دوسری کسی پوسٹ میں یا اسی پوسٹ میں ضرور تحریر کروںگا۔ 

ڈیجیٹل کتابوں کے بارے میں ریاض شاہد صاحب کے بلاگ "جریدہ" میں ایک خوبصورت اور معلومات افزاء پوسٹ پیش خدمت ہے۔

Comments

  1. لائک کا بٹن کدھر ہے لائک کر لوں

    ReplyDelete
  2. بہت شکریہ ریاض بھائی، آپ کے یہ الفاظ میرے لئے بڑے بڑے لائک بٹن سے بڑھ کر ہیں۔ شکریہ

    ReplyDelete

Post a Comment