انصاف اور تحریک انصاف


ایچ ایم کالامی (کالام، سوات):        اگر معاشرے میں انصاف کی قیمت لگ جاتی ہے تو وہاں انسانیت کی قیمت دو کوڑی کی بھی نہیں رہ جاتی ۔ بد قسمتی سے وطن عزیز کے تمام اداروں میں انصاف کی اپنی اپنی قیمت لگ چکی ہے۔ 

تھانہ کچہری اور جیلوں میں جاکر دیکھیں تو سلاخوں کے پیچھے صرف وہی بے چارے قید فرنگ کی سزا کاٹ رہے ہوں گے جو غریب یا معمولی طبقے سے تعلق رکھتے ہو ں اور اگر وڈیرہ ، خان یا کوئی با اثر شخصیت سنگین جرم کا ارتکاب بھی کرتی تو ایک فون کال پر تھانہ پہنچنے سے پہلے ہی وہ بری ہوجاتے ہیں۔
غریب اور بے بس اپنی جائیداد اور املاک کی خاطر عدالتوں میں انصاف کے لئے گڑگڑا کر روتے ہیں، لیکن بے سود ۔ وڈیرے اور خان کسی غریب کے جائداد پر غاصبانہ قبضہ جما کر آسانی کے ساتھ عدالتوں سے انصاف کا سودا کر جاتے ہیں۔
ہسپتالوں میں جاکر دیکھیں تو بے دام مریض کسی ورکشاپ میں ناکارہ پرزوں کی طرح ٹوٹے بکھرے پڑے ہیں۔جبکہ کسی خان کے بیٹے کو سر درد کی شکایت ہوجائے تو پورے ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ ہوتی ہے۔
سڑکوں پر ٹریفک کا نظام دیکھیں توقانون کا دائرہ صر ف غریب محنت کش ریڑی بانوں کے گرد کھینچا ملے گا۔اور مہنگے خوبصور ت گاڑیوں کے برق رفتاری سے چلنے والے پہئیے جب لوگوں کو کچلتے ہوئے نکل جاتے ہیں، تو قانون ان کے لئے اندھا ہے ،اور ستم بالائے ستم یہ کہ تعلیم جیسے مقدس ادارے جو کسی بھی ملک اور معاشرے کی ترقی یا زوال میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ان میں بھی انصاف کی دھجیاں اڑائی جاتی ہے۔
سکولوں میں جاکر دیکھیں تو غریب کے بچے صرف ان سرکاری سکولوں میں دکھائی دیتے ہیں ،جہاں ٹاٹوں پر بیٹھ کر پڑھا جاتا ہے ،جہاں لیٹرین اور پینے کا صاف پانی کی سہولت تک موجود نہ ہو،جہا ں پھٹی ہوئی جالیوں والے کھنڈر نما رومز میں بچے بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کا منظر پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ امیرو ں کے بچے خوبصورت ،صاف و شفاف عمارتوں میں گرم اور ٹھنڈا پانی ، ائیرکنڈیشنز، ہیٹرزکی سہولیات سے مزین کشادہ رومز میںآرام دہ ڈسکوں پر براجمان د کھائی دیتے ہیں۔
امیر تو جعلی ڈگریوں کی مدد سے اڑان بھر کر وزارتوں کے کرسیوں پر براجمان ہوتے ہیں ۔اور غریب ہونہار طالب علم اپنی محنت اور لگن سے پڑھ کر حاصل کی ہوئی ڈگریوں کی گھٹڑیاں کاندھوں پر اٹھا کر دردر کی خاک چھان رہے ہیں۔
الغرض وطن عزیز کے چھوٹے سے چھوٹے ادارے سے لیکر بڑے سے بڑے اداروں تک انصاف کی دھجیاں اڑائی جاتی ہے ۔انصاف دو کوڑی کے داموں بیچا جارہا ہے۔انصاف پیسے والوں کی ہاتھوں میں اور غریبوں کے پہنچ سے کوسوں دور۔ ایسی صورت حال میں انسانیت کی کیا قیمت ہوگی ؟ انصاف کی قیمت میں جس قدر اضافہ ہوتا جا رہا ہے اسی تناسب سے انسانیت کی قیمت گرتی جاتی ہے۔لیکن ایسا کیوں ہے؟قارئین انصاف سے محرومیت کی ذمے داری وطن عزیز کے اداروں پر عائد ہوتی ہے ، لیکن اداروں میں اس بحران کی ذمے دار بہرحال حکومت ہی ہوتی ہے، جس کی نگرانی میں تمام ادارے حرکت میں ہوتے ہیں۔حکومت کے اپنے نمائندے اگر عوام کے خون پسینے سے جمع کی ہوئی دولت کو ہڑپ کر سکتے ہیں تو یہ اداروں کی خاک نگرانی کریں گے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لیکر تعلیمی اداروں کی حالات جو میں اوپر بیان کرچکا ہوں کیا ان حالات میں تبدیلی کا لفظ کوئی معنی رکھتا ہے؟
وطن عزیز کے دوسرے صوبوں میں نہ سہی خیبر پختونخوا میں تو اب حکومت بھی انصاف کی تحریک کا حصہ ہے۔یہاں کے مظلوم عوام نے میٹرو بس ، لیپ ٹاپس، اور دو روپے کی روٹی کو پس پشت ڈال کر صرف اور صرف انصاف کے ذریعے تبدیلی لانے کی سعی کی ہے۔اب اگر تبدیلی لانا مقصود ہو تو ان اداروں میں انصاف کابول بالا کرنا چاہیے۔تحریک انصاف کی قیادت کو اپنے ایم پی ایز ایم این ایز کے اوپر بھی کڑی نگرانی کرنی چائیے ، تاکہ ترقیاتی اور تعمیراتی کاموں کے بجٹ اگر پورا نہیں تو کافی مقدار میں تو استعمال میں لایا جاسکے نہ کہ پچھلی حکومت کی طرح کل بجٹ ہی ہڑپ کرکے عوام کے دی ہوئی مینڈیٹ اورامیدوں کا مذاق اڑایا جائے۔

Comments