سوشل میڈیا کا ان سوشل استعمال

ہمارے محترم سینئر صحافی جناب سلیم صافی صاحب نے اپنے کچھ ذاتی مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں سوشل میڈیا کو غیر اخلاقی انداز میں استعمال کرنے پر ایک جامع تحریر ضبط قلم  کی ہے۔ اُن کےاس کالم کے بارے میں ایک دو دستوں سے سنا تو تھا مگر پڑھنے کا موقع نہیں ملا، آج پہلی فرست میں اُن کا یہ کالم پڑھا تو یوں محسوس ہونے لگا جیسے یہ اُن کے قلم کی نوک پر ہر سوشل میڈیا کے استعمال کنندہ کی کہانی ہے۔ چونکہ یہ میڈیم اظہار رائے کے لئے ایک آزاد پلیٹ فارم ہے جس پر کسی کی کوئی روک ٹوک نہیں اور ہر کوئی اپنی ذہنیت کے مطابق کوئی بھی چیز شیئر کرلیتا ہے تو ایسے حالات میں کسی سے گلہ کرنا بہت مشکل ہے۔ یہاں پر اپنے آپ کو چھپانا نہایت آسان ہے، ایک آدمی دس دس آئی ڈیز بنا کر بیٹھا ہوگا، ایک پر ایک کے خلاف اور دوسرے پر دوسرے کے خلاف زہر اُگل رہا ہوگا اور تیسرے سے اپنے آپ کو فرشتہ صفت بنائے رکھے گا۔ 
ٹوئیٹر پر تو ایک سہولت موجود ہے کہ اگر آپ ٹوئیٹر کو اپنی مکمل کوائف مہیا کردیتے ہیں تو وہ آپ کے اکاؤنٹ کی تصدیق کردیتے ہیں اور اگر اس کو سرچ کیا جائے گا تو اصلی اکاؤنٹ کے سامنے ایک "ٹک مارک" کا نشان لگ جاتا ہے ، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ اکاؤنٹ تصدیق شدہ ہے جبکہ فیس بک پر اس معاملے میں ابھی تک کوئی کام نہیں نظر آتا جہاں سے پتہ چل سکے کہ یہ اکاؤنٹ واقعی مطلوبہ شخص کا ہے کہ نہیں، اگر کسی کو معلوم ہو تو برائے مہربانی یہ معلومات دوسروں کے ساتھ بھی شئیر کریں۔
رہی بات پچھلے دنوں میں انقلابیوں کی سوشل میڈیا پر یلغار کی تو یہ بات واضح ہے کہ تعلیم یافتہ تو ہیں مگر تربیت سے عاری قوم ہیں۔ جس کا جو ذہن میں آتا ہے سوشل میڈیا پر بغیر کسی تصدیق، تحقیق کے شئیر کردیتا ہے۔ بڑوں کی عزت اور غیرت کا تو ہمیں کوئی احساس ہی نہیں، قومی تشخص کا جنازہ تو ہم ویسے ہی نکال چکے ہیں۔ آج کل انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا تک ہر چھوٹے بڑے کی پہنچ بہت آسان ہے، ہر بندے کو کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ آسانی سے دستیاب ہے، فوٹو/ویڈیو ایڈیٹنگ ٹولز ہر جگہ آسانی سے مل جاتے ہیں ، اب یہ منحصر ہے استعمال کنندہ پر کہ وہ کس طرح سے اس کو استعمال کرتا ہے۔ بڑی آسانی سے ایک تصویر کو توڑ مروڑ کر مسخ شدہ مواد کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے۔ انقلابیوں میں زیادہ تر تعداد اُن افراد کی ہے جن کو ہم نوعمر کہہ سکتے ہیں یا بچگانہ ذہنیت کے مالک بڑی عمر کے لوگ۔ یہ لوگ جذبات میں آکر کچھ بھی شئیر کرلیتے ہیں، ان کی تربیت ابھی نامکمل ہے اور شتر بے مہار کی طرح ہر جگہ منہ مارنے سے گریز نہیں کرتے۔  کچھ اور لکھنے کو دل نہیں کررہا، سلیم صافی صاحب کا مضمون پیش خدمت ہے ، پڑھئے اور تبصرہ کیجئے۔

Comments