
ابھی سوات سمر فیسٹیول میں تین چاردن باقی ہے اور پہلے سے ہی سیاحوں کا فوج ظفر موج وادی کالام کی طرف رواں دواں ہے۔
قارئین کرام ! اس حوالے سے ہم نے ایک مہینے قبل ہی روزنامہ چاند اور زما سوات ڈاٹ کام پر ایک کالم ’بل ی سر تہ پراٹے گوری ‘ کے نام سے تحریر کیا تھا۔
اس کالم میں ہم نے سوات کی سیاحت کو بہتر بنانے کے مقصد میں سیلاب سے تباہ شدہ سڑکوں کی بحالی کو مدنظر رکھ کر چند تجاویز پیش کی تھیں۔
اب چند دنوں سے سوات میں درمیانے سیلاب کو سوات سمر فیسٹول کی راہ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی ہے۔اور بطور خاص ہمارا دل ہوا ہوا جارہا ہے کہ کہیں سوات سمر فیسٹول دریائے سوات کے بے رحم موجوں کی نذر نہ ہوجائے ، لیکن اگر ہم اس سیلاب کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو یہ سرے سے سیلاب ہے ہی نہیں ۔
گرمیوں میں دریائے سوات کا بپھر جانا اس کی سرشت میں شامل ہے۔
خاص کر جون جولائی میں جیسے ہی پہاڑوں پر برف پگھلنا شروع ہوتا ہے تو دریائے سوات اٹکیلیاں لینے لگتا ہے۔گذشتہ سیلاب نے لوگوں کے مکانات اور املاک کا صفایا کرنے کے ساتھ ساتھ منگورہ سے لیکر کالام تک دریائے سوات کے دو رویہ چلنے والی سڑک کو بھی پوری طرح نگل لیا تھا۔
حکمرانوں نے تو سڑکوں کی بحالی کے حوالے سے چپ کا روزہ رکھا لیکن مجبور عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک کچی سڑک کالام تک پہنچائی ، خوراک اور دیگراشیائے ضروریہ کو کالام تک پہنچانے کا بندوبست کیا ۔چونکہ یہ سڑک بغیر کسی مستحکم حفاظتی پشتوں کے تعمیر کی گئی عارضی سڑک تھی ۔ اور مقامی لوگوں نے بھی زیادہ تر اپنے مکانات اور دیگر کاروباری عمارات کو سیلاب کے ٹل جانے کے بعد دوبارہ دریا کنارے کچی اور ریتلی مقامات پر بغیر کسی حفاظتی اقدام کے بنایا تھا۔ اب وہ کچی سڑک اور عین دریا کنارے بنائی گئیں عمارات دریائے سوات کے غضب ناک موجوں کے سامنے کہاں ٹک سکتی ہیں۔
اگر اس ساری صورت حال کا بغور جائزہ لیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اگر سوات کی سیاحت کو دوبارہ سے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا مقصود ہو تو یہاں کے سڑکوں کی بحالی اور حفاظتی اقدامات فیسٹولز اور میلوں کے انعقاد سے کہیں بڑھ کر اہم ہے۔
اس صورتحال میں ایک اور بات ہمارے لئے باعث تردد رہی ہے کہ کچھ حکومتی نمائندے اور ٹریڈ سے وابسطہ افراد دریائے سوات کی موجودہ تباہ کاری کے خبروں کی اشاعت پر ناراضی کا اظہار کرتے ہیں۔اور صحافی برادری کو چپ رہنے کی تلقین کرتے دکھائی دیتے ہیں۔لیکن حقیقت پسندانہ خبروں کی اشاعت صحافیوں کا فرض ہے ۔ مجبور عوام کے زور بازو سے بنی ہوئی سڑکیں اور مکانات پھر سے موجوں کی نذر ہوتے جارہے ہیں اور ارباب اقتدار کے کانوں پر تو جوں تک نہیں رینگتی ۔
اس تمام تر صورت حال میں اگر صحافی برادری بھی اپنے قلم کو لگام دیں تو یہ اصول صحافت کی خلاف ورزی ہوگی ۔
فیسٹول اور میلوں ٹھیلوں پر خرچ کی جانے والی رقم اگر کالام کی سڑکوں پر لگائی جائے تو از چیں بہتر؟ باقی ہمارے بڑوں کی مرضی۔
بہت خوب اللہ کرے وادی کی پرانی رونقیں واپس آئیں اور یہ ہنستی مسکراتی رہے
ReplyDelete