کبھی کبھار آپ سوچتے کچھ ہیں اور ہو کچھ جاتا ہے۔ اور میرے خیال میں وہی ہمارے لئے بہتر ہوتا ہے کیونکہ اُس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور ہوتی ہے۔ پچھلے دنوں اچانک اسلام آباد جانے کا پروگرام بنا۔ جانا تو ایک دوست کے ساتھ تھا جس کا کوئی کاروباری کام تھا لیکن چونکہ میں اُس دن گھر نہیں گیا تھا اور پشاور میں اکیلے تھا اس لئے اُس نے مجھے بھی جانے کی دعوت دی جو میں نے بغیر چوں چراں کے قبول کر لی۔ میں سوچ رہا تھا کہ اسلام آباد جا کر کچھ بلاگردوستوں کو بھی تنگ کرلوں گا۔ پشاور سے نکلے تو عین صوابی کے پاس گاڑی خراب ہوگئی اور پھر رات بارہ بجے تک موٹر وے پر ہی وقت گزار دیا، کچھ مکینکوں کے چکروں میں اور کچھ گرمی اور شدید دھوپ میں۔
ایک دن پہلے محمد سعد بھائی سے ملنے کا پروگرام بنایا تھا۔ چونکہ وہ اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد میں زیر تعلیم ہیں اس لئے اُن سے ملاقات کے بہانے یونیورسٹی دیکھنے کا شوق بھی تھاکیونکہ بچپن سے خواہش تھی مگر ابھی تک موقع نہیں ملا اس مادرعلم کو دیکھنے کا۔ سعد بھائی نے بہت کھلے دل سے آنے کی دعوت دی مگر کیا کریں پورا دن خوار ہونے کے بعد رات بارہ بجے اسلام آباد پہنچے تقریباً 13گھنٹے موٹر وے پر گزرے لیکن اللہ کا کرم ہے کہ کوئی بڑا حادثہ نہیں ہوا۔ اگلے دن میرا دوست اپنے کاموں میں مصروف ہوگیا اور میں اُس کے ساتھ ساتھ رہا۔ اللہ کا کرم کے اُس دن تھوڑی ہوا چل رہی تھی اور گرمی کی شدت میں تھوڑی سی کمی آگئی تھی۔ چار بجے کے قریب مجھے عامر ملک بھائی کی کال بھی آئی اور خوشی کے ساتھ ساتھ شرمندگی بھی ہوئی جب اُںہوں نے کہا کہ وہ کراچی سے ایک دن پہلے واپس اسلام آباد آگئے۔ مجھے بہت افسوس ہو رہا تھا کیونکہ دوستوں سے ملاقات بھی نہ ہوئی۔ میں اپنی اس تحریر کے ذریعے اپنے بلاگر دوستوں سے معافی بھی چاہوں گا اور اُمید رکھوں گا مستقبل قریب میں ضرور اُن سے ملاقات ہوگی۔
Comments
Post a Comment