پاکستان تحریک انصاف کے حوالے سے یہ بات بہت دنوں سے گردش میں تھی کہ اگر اُن کی حکومت آئی تو ہر صوبے میں وزیر اعلیٰ اور گورنر ہاؤس کو لائبریری اور یونیورسٹیز میں تبدیل کردیا جائے گا۔ پورے ملک میں تو نہیں لیکن صوبہ خیبر پختونخواہ میں اُن کی حکومت کا چاند ضرور نظر آیا اور ہمیں خوشی ہے کہ ہماری یہ روائت بھی برقرار رہی اور ہر عید کے موقع پر جو چاند خیبر پختونخواہ میں سب سے پہلے نظر آتا ہے،اس دفعہ بھی چہروں اور سیاست کی تبدیلی کا چاند سب سے
پہلے ہمارے صوبے میں نظرآیا جو اس بات کی گواہی ہے کہ غیور پٹھان اپنے حق رائے دہی کی طاقت سے واقف ہیں ۔
پہلے ہمارے صوبے میں نظرآیا جو اس بات کی گواہی ہے کہ غیور پٹھان اپنے حق رائے دہی کی طاقت سے واقف ہیں ۔
پورے ملک میں تبدیلی کی لہر محسوس ہو نہ ہو صوبہ خیبر پختونخواہ میں تو تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے اورکل جب صوبہ کے متوقع وزیر اعلیٰ جناب پرویز خٹک صاحب کے ٹویٹر پریہ پیغامات دیکھے کہ ہم وزیر اعلیٰ ہاؤس کو لائبریری میں تبدیل کریں گے اور گورنر ہاؤس میں یونیورسٹی کے قیام کے بارے میں ارباب اختیار سے رابطہ کریں گے تو محسوس ہوا کہ کم از کم جو باتیں ان سے منصوب تھیں اب وہ اُن کی تصدیق کررہےہیں۔ ہم لوگ اُن کے اس جذبے اور علم سے محبت کے ولوے کا خیر مقدم کرتے ہیں ۔ یہ پیغام پی ٹی آئی کی طرف سے نہ صرف تبدیلی کا ایک خوشگوار جھونکہ ہے بلکہ اعتراضات اور تنقید کرنے والوں کے لئے ایک مضبوط جواب بھی ہے۔ جس طرح تحریک انصاف کے منشور میں تعلیم، صحت اور امن وامان پر زیادہ توجہ دینے کی بات ہو رہی ہےتو اُنہوں نے ابتداء بھی تعلیم کے فروغ سے کی۔
لائبریری کا وجود ہمارے معاشرے میں ختم ہوتا جارہا ہے، کتب بینی میں دلچسپی اور پڑھنے کی عادات تقریباً ہماری قوم میں معدوم ہوتی جارہی ہیں۔ کتاب پڑھنے کے مقابلے میں اس وقت نئی ٹیکنالوجی نے میدان میں جو دیواریں کھڑی کی ہوئی ہیں وہ آپ کے سامنے ہیں۔ جو لوگ پڑھنے کی عادت اپنا ئے ہوئے ہیں وہ کسی بھی طور اس سے دور نہیں ہوسکتے مگر نوجوانوں کوکتب بینی کی طرف راغب کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ نوجوانوں کی دلچسپی کے لئے جدید ٹیکنالوجی کے اور بھی بہت ساری ایجادات موجود ہیں جو اُن کو اپنی گرفت میں رکھے ہوئے ہیں۔ اگر وزیر اعلیٰ ہاؤس کو لائبریری میں تبدیل کردیا گیا تو یہ ایک اچھا اقدام ہوگا مگر کچھ زمینی حقائق بھی ہیں جن سے نظریں چرانا مشکل ہے۔ سب سے پہلی بات کہ اگر وزیر اعلیٰ ہاؤس کو لائبریری میں تبدیل کر بھی دیا گیا تو یہ کن افراد کے لئے ہوگی؟ کیا عام عوام کے لئے یا صرف خواص کے لئے۔ کیونکہ وزیر اعلیٰ ہاؤس پشاور کے "ریڈ زون" علاقے میں واقع ہے۔ جس کے چاروں طرف گورنر اور دوسرےاعلیٰ افسران کی رہائش گاہیں، حساس اداروں کے دفاتر اور دیگر اہم مقامات ہیں۔ اگر آپ وزیر اعلیٰ ہاؤس کو لائبریری بنا ہی لیں تو یہ بتائیں کہ یہ کون لوگ وہاں جائیں گے؟ کیا یہ جنوں اور پریوں کے لئے ہوگی جو اُڑ کر وہاں تشریف لائیں گے یا یہ صرف علامتی لائیبریری ہوگی؟ کیونکہ ایک عام آدمی کے لئے اُس علاقے سے گزرنہ بھی ممکن نہیں۔ جوش اور جذبے میں آکر ہمارے نئے آنے والے حکمران کوئی فیصلہ نہ کرے تو بہتر ہوگااور اس کے ساتھ ساتھ اُن کو کچھ تلخ حقائق کو بھی دیکھنا ہوگا۔ وزیر اعلیٰ ہاؤس کے اردگرد کا سارہ علاقہ فوجی چھاؤنی کا ہے جہاں عوام کا گزرنا محال ہے، بالفرض کوئی پہنچ بھی گیا لائبریری تک توکیا وہ سکون اور توجہ کے ساتھ مطالعہ کر سکے گا جبکہ کئ چیک پوسٹوں پر اُس کی تلاشی لی گئی ہو، پہلے تو یہاں آس پاس کوئی گاڑی پارک کرنے کی جگہ نہیں ہے اور اگر کئی میل دور اُس کی گاڑی کھڑی کی جائے یا کئی میل دور سے وہ پیدل چل کر آئے کیونکہ وزیراعلیٰ ہاؤس تک کوئی بھی پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں ہےاور نہ ہی ٹیکسی/رکشہ کو اس طرف آنے دیا جاتا ہے۔ اسی علاقے میں صوبائی پبلک سروس کمیشن کا دفتر بھی ہے جہاں پر روزانہ کسی نہ کسی آسامی کے لئے کوئی نہ کوئی امتحان یا انٹرویو منعقد کیا جاتا ہے چونکہ یہ وی وی آئی پی علاقہ ہےاور آسانی سے یہاں آمد ورفت ممکن نہیں اس لئے یہاں تک آنے والوں کو جو مشکلات درپیش آتی ہیں وہ حل طلب ہیں۔ پشاور کا سینہ جس رفتار سے ملک دشمن عناصر کی کارروائیوں سے چھلنی ہورہا ہے اُسی رفتار سے پولیس اورامن قائم کرنے والے اداروں کی چیک پوسٹوں سے سیا بھی جارہا ہے۔ جب بھی کوئی براواقعہ ہوتا ہے تو پشاور کی سڑکوں پرکوئی نہ کوئی نئی چیک پوسٹ بن جاتی ہے۔ یہاں اب آسانی سے آنا جانا ممکن نہیں۔ پہلی ترجیح میں تو یہ ساری چیک پوسٹیں ختم کی جائیں، امن کی بحالی کو یقینی بنایا جائے اور روائیتی سیاست سےدور رہا جائے تو بہتر ہوگا۔ اگر نئی حکومت کی ترجیحات میں واقعی لائیبریریز کا قیام اور عوام میں مطالعے اور علم کا فروغ سرفہرست ہے تو پھر اُن کو ایسی مقامات پر یونیورسٹیز اور لائبریرزقائم کرنا چاہئے جہاں آمدرورفت کی آسانی ہو۔ جہاں لوگ سکون کے ساتھ بیٹھ کر مطالعہ کر سکیں اور جدید سہولیات سے آراستہ آن لائن لائیبریریز کو متعارف کروایاجائے۔ مینگورہ میں ایم ایم اے کی حکومت کے دور میں سابق ایم پی اے جناب محمد امین صاحب کی ذاتی دلچسپی سے آن لائن لائبریری قائم کی گئی جہاں پرکتب کے ساتھ ساتھ انٹر نیٹ کی سہولیات آن لائن ریسرچ اور مطالعے کے لئے مہیا کی گئی۔ روزانہ عوام و طلباء کی بڑی تعداداس آن لائن لائبریری کی سہولیات سے مستفید ہورہے ہیں۔
لائبریری کا وجود ہمارے معاشرے میں ختم ہوتا جارہا ہے، کتب بینی میں دلچسپی اور پڑھنے کی عادات تقریباً ہماری قوم میں معدوم ہوتی جارہی ہیں۔ کتاب پڑھنے کے مقابلے میں اس وقت نئی ٹیکنالوجی نے میدان میں جو دیواریں کھڑی کی ہوئی ہیں وہ آپ کے سامنے ہیں۔ جو لوگ پڑھنے کی عادت اپنا ئے ہوئے ہیں وہ کسی بھی طور اس سے دور نہیں ہوسکتے مگر نوجوانوں کوکتب بینی کی طرف راغب کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ نوجوانوں کی دلچسپی کے لئے جدید ٹیکنالوجی کے اور بھی بہت ساری ایجادات موجود ہیں جو اُن کو اپنی گرفت میں رکھے ہوئے ہیں۔ اگر وزیر اعلیٰ ہاؤس کو لائبریری میں تبدیل کردیا گیا تو یہ ایک اچھا اقدام ہوگا مگر کچھ زمینی حقائق بھی ہیں جن سے نظریں چرانا مشکل ہے۔ سب سے پہلی بات کہ اگر وزیر اعلیٰ ہاؤس کو لائبریری میں تبدیل کر بھی دیا گیا تو یہ کن افراد کے لئے ہوگی؟ کیا عام عوام کے لئے یا صرف خواص کے لئے۔ کیونکہ وزیر اعلیٰ ہاؤس پشاور کے "ریڈ زون" علاقے میں واقع ہے۔ جس کے چاروں طرف گورنر اور دوسرےاعلیٰ افسران کی رہائش گاہیں، حساس اداروں کے دفاتر اور دیگر اہم مقامات ہیں۔ اگر آپ وزیر اعلیٰ ہاؤس کو لائبریری بنا ہی لیں تو یہ بتائیں کہ یہ کون لوگ وہاں جائیں گے؟ کیا یہ جنوں اور پریوں کے لئے ہوگی جو اُڑ کر وہاں تشریف لائیں گے یا یہ صرف علامتی لائیبریری ہوگی؟ کیونکہ ایک عام آدمی کے لئے اُس علاقے سے گزرنہ بھی ممکن نہیں۔ جوش اور جذبے میں آکر ہمارے نئے آنے والے حکمران کوئی فیصلہ نہ کرے تو بہتر ہوگااور اس کے ساتھ ساتھ اُن کو کچھ تلخ حقائق کو بھی دیکھنا ہوگا۔ وزیر اعلیٰ ہاؤس کے اردگرد کا سارہ علاقہ فوجی چھاؤنی کا ہے جہاں عوام کا گزرنا محال ہے، بالفرض کوئی پہنچ بھی گیا لائبریری تک توکیا وہ سکون اور توجہ کے ساتھ مطالعہ کر سکے گا جبکہ کئ چیک پوسٹوں پر اُس کی تلاشی لی گئی ہو، پہلے تو یہاں آس پاس کوئی گاڑی پارک کرنے کی جگہ نہیں ہے اور اگر کئی میل دور اُس کی گاڑی کھڑی کی جائے یا کئی میل دور سے وہ پیدل چل کر آئے کیونکہ وزیراعلیٰ ہاؤس تک کوئی بھی پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں ہےاور نہ ہی ٹیکسی/رکشہ کو اس طرف آنے دیا جاتا ہے۔ اسی علاقے میں صوبائی پبلک سروس کمیشن کا دفتر بھی ہے جہاں پر روزانہ کسی نہ کسی آسامی کے لئے کوئی نہ کوئی امتحان یا انٹرویو منعقد کیا جاتا ہے چونکہ یہ وی وی آئی پی علاقہ ہےاور آسانی سے یہاں آمد ورفت ممکن نہیں اس لئے یہاں تک آنے والوں کو جو مشکلات درپیش آتی ہیں وہ حل طلب ہیں۔ پشاور کا سینہ جس رفتار سے ملک دشمن عناصر کی کارروائیوں سے چھلنی ہورہا ہے اُسی رفتار سے پولیس اورامن قائم کرنے والے اداروں کی چیک پوسٹوں سے سیا بھی جارہا ہے۔ جب بھی کوئی براواقعہ ہوتا ہے تو پشاور کی سڑکوں پرکوئی نہ کوئی نئی چیک پوسٹ بن جاتی ہے۔ یہاں اب آسانی سے آنا جانا ممکن نہیں۔ پہلی ترجیح میں تو یہ ساری چیک پوسٹیں ختم کی جائیں، امن کی بحالی کو یقینی بنایا جائے اور روائیتی سیاست سےدور رہا جائے تو بہتر ہوگا۔ اگر نئی حکومت کی ترجیحات میں واقعی لائیبریریز کا قیام اور عوام میں مطالعے اور علم کا فروغ سرفہرست ہے تو پھر اُن کو ایسی مقامات پر یونیورسٹیز اور لائبریرزقائم کرنا چاہئے جہاں آمدرورفت کی آسانی ہو۔ جہاں لوگ سکون کے ساتھ بیٹھ کر مطالعہ کر سکیں اور جدید سہولیات سے آراستہ آن لائن لائیبریریز کو متعارف کروایاجائے۔ مینگورہ میں ایم ایم اے کی حکومت کے دور میں سابق ایم پی اے جناب محمد امین صاحب کی ذاتی دلچسپی سے آن لائن لائبریری قائم کی گئی جہاں پرکتب کے ساتھ ساتھ انٹر نیٹ کی سہولیات آن لائن ریسرچ اور مطالعے کے لئے مہیا کی گئی۔ روزانہ عوام و طلباء کی بڑی تعداداس آن لائن لائبریری کی سہولیات سے مستفید ہورہے ہیں۔
میری آنے والی حکومت سے درخواست ہے کہ اپنی توانائی اور وقت غیر ضروری کاموں میں خرچ کرنے کے بجائے تعمیری کاموں میں لگائی جائے۔ عوام کے فائدے کے لئے اقدامات اُٹھائے جائیں۔ امن وامان کی بحالی کو یقینی بنایا جائے اور دورِجدید
کے مطابق ایسے منصوبے بنائے جائیں جن سے عوام کو فائدہ پہنچے نہ کہ وسائل اور پیسے کا ضیائع ہو۔
کے مطابق ایسے منصوبے بنائے جائیں جن سے عوام کو فائدہ پہنچے نہ کہ وسائل اور پیسے کا ضیائع ہو۔
"Daily Azadi Swat" 24.03.2013
www.dailyazadiswat.com
ویسے تو مجھے سیاست سے دلچسپی ہے مگر میں نیٹ پر کمنٹ کرنے سے اجتناب کرتی ہوں۔
ReplyDeleteمگر آج آپ کا یہ مضمون پرھکر بہت اچھا لگا ۔ہر ایک شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی رائے کا استمعال کرے اور آپ نے یہ کام بہت اچھے سے کیا ہے ۔جزاک اللہ خیر