قیلولہ یہ لفظ بچپن میں جب پہلی بار سنا تھا تو تھوڑی سی ہنسی بھی آئی تھی مگر اب جب اس کے فوائد دیکھے تو شرمندگی سی ہوتی ہے اور اُردو زبانسے معافی بھی مانگی ہے (دل میں)۔ کچھ دن پہلے اپنی فیس بک کی وال پر سیاسی پوسٹوں کی یلغار میں ایک ننھی منی سی پوسٹ دیکھی جس کے مطابق دن کو کھانے کے بعد سونا چاہئے اگر کانٹوں پر ہی کیوں نہ سونا پڑے اور رات کے کھانے کے بعد لازماً چہل قدمی کرنی چاہئے خواہ دہکتے کوئلوں پر ہی کیوں نہ چلنا پڑے۔ یہ پوسٹ دیکھ کر امی جان کی ڈانٹ یاد آئی جب ہم گرمیوں کی تپتی دوپہر میں سکول سے واپسی کے بعد بیٹھ کر ٹی وی دیکھتے تھے یا کچھ ادھر اُدھر کی پڑھائی کرتے تھے مگر امی بضد ہوتی تھیں کہ نہیں بھئی سونا ہے ہم لاکھ کوشش کرتے مگر نیند کہاں آتی تھی۔ ہمارے گھر میں تو یہ معمول ہے کہ خواہ گرمی ہو یا سردی دوپہر کے کھانے کے بعد سب سو جاتے ہیں اور گھر میں ہو کا عالم ہوتا ہے اور یہ بھی یاد ہے جب بچپن میں سب کے سونے کا ایک فائدہ ہوتا کہ مجھے شرارت کرنے کا بھرپور موقع میسر ہوتا اور میں دنیا جہاں کی دوائیوں کو آپس میں ملا ملا کر نجانے کیا بناتا رہتا تھا اور جب گھر والے اُٹھتے تو اپنی دوائیاں اور گولیاں نہ پاتے تو اُن کا غصہ دیکھنے کے قابل ہوتا لیکن اُن کے جاگتے ہی میں میرا قیلولے کا وقت ہوجاتا اِس لئے سب کے غضب سے ہمیشہ محفوظ رہا مگر جب تھوڑا بڑا ہوا تو پھر اپنے چچا کی کتابیں، ناول اور میگزینز پڑھنے لگا۔ قیلولے کی افادیت دوبارہ اُس وقت سمجھ میں آئی جب ہمارے دفتر میں ہمارے باریش و بزرگ سٹینو صاحب کو دیکھا۔ صبح کے وقت وہ مسجد میں آرام سے دو رکعت نفل تراویح کے انداز میں پڑھنے چلے جاتے، دس بجے کے قریب آکر تھوڑا ادھر اُدھر دیکھ کر چائے پینے چلے جاتے، پھر بارہ بجے دن کو وہ کھانا کھانے چلے جاتے، ایک بجے کے قریب وہ نماز کی تیاری کے لئے چلے جاتے اور ساتھ ہی ساتھ قیلولہ بھی مسجد میں فرما کر واپس آتے تو 2بج چکے ہوتے تب اُن کے گاؤں جانے کا وقت ہوچکا ہوتا ، تو وہ اپنی چادر سمیٹ کر رفو چکر ہوجاتے۔ باقاعدہ تبلیغ کے لئے جاتے ہیں، اللہ کے رحم سے دو دفعہ حج کی سعادت حاصل کر چکے ہیں اور کبھی کبھار دفتر میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اور مزے کی بات جب رمضان میں اُن کی دفتر میں آمد ہوتی ۔ آتے تو دفتر مگر زیادہ تر وقت سیکرٹریٹ کی مسجد میں گزارتے، اللہ رحم کرے ہمارے عیسائی آفیسر پر جو کبھی بھی اُنہوں نے مذہبی معاملات میں دخل اندازی نہیں کی، بلکہ ہمیشہ ہمیں مذہبی اُمور کی ادائیگی میں آسانی دی۔ بات ہو رہی تھی قیلولے کی، تو جناب اب بھی گرمیاں اپنی جوبن پر ہیں اور دوپہر کے کھانے کے بعد آنکھیں ویسے ہی بند ہونے لگتی ہیں مگر جب سونے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ظالم واپڈا ہمیں سونے نہیں دیتا۔ شاید قائدبابا کے اُصولوں کو انہوں نے ہم پر زبردستی لاگو کرنا ہے یعنی کام کام اور بس کام۔ ویسے فیس بک ہے بڑے کام کی چیز۔ اس دفعہ الیکشن میں میری فیس بک کی وال بھی میرے گھر کی دیوار کی طرح رہی۔ ہر پارٹی کے اشتہار سے بھری ہوئی اور ایک پارٹی کے ورکروں کی دوسری پارٹی کے لوگوں کے خلاف اظہار رائے اور یہ سب آزادی اظہار رائے کے بدولت ممکن ہوا۔ گلی کوچوں میں گھوم کر یہ راز کھلا کہ اس بار فیس بک کی وجہ سے دیوار در و بام ہر قسم کے سیاسی پوسٹروں سے کسی حد تک محفوظ رہے۔ کیونکہ اب ہر دوسرے بندے کی پہنچ فیس بک اور دوسرے سوشل میڈیا کے ذرائع تک بہت آسان ہے اور یہ بہت بڑا فائدہ بھی ہے ویسے ہی ہم لوگ فیس بک کے استعمال پر اعتراضات اُٹھاتے ہیں اب اسی کو دیکھ لیجئے کون سا ٹی وی چینل آپ کو وہ وہ خبریں، تصاویر اور ویڈیوز دکھا سکتا ہے جو آج کل ہر یوزر کی دیوار پر آویزاں ہیں، جان جو سب کو عزیز ہے۔ بس ایک عدد ای میل بنائیں، فٹ سے فیس بک اکاؤنٹ بنائیں کوئی تہلکہ خیز ویڈیو ڈھونڈیں اور دے دیجئے فیس بک پر اب دیکھیں کیسے لوگ آگے صدقہ جاریہ کے تو پر اس کو پھیلاتے ہیں اور آپ بوری سے بھی بچیں گے اور نہ ہی لفافے میں گولی آئے گی۔ میرے خیال میں تو اس باری الیکشن میں پارٹیوں کا پچاس فیصد پروپیگنڈہ اسی میڈیم سے ہوا ہے۔ یار میں تو بات کر رہا تھا قیلولے کی جیسے یہاں مجھے فیس بک کوئی اور بات کرنے کی اجازت نہیں دے رہا اُسی طرح قیلولہ کا بھی یہ دشمن ہے، تو جناب یہ بہت اچھی عادت ہے، اگر واپڈا اجازت دے، اگر فیس بک اور سوشل میڈیا اجازت دے تو تپتی گرمیوں میں سکول، کالج، یونیورسٹی، دفترسے واپسی کے بعد یا دوران کاروبار ضرور بیس پچیس منٹ کا وقفہ کیجئے اور تھوڑا سا آرام کیجئے۔ یہ آرام نہ صرف آپ کی صحت کے لئے بہتر ہے بلکہ سارا دن جو لوگ آپ کو دیکھ دیکھ کر بور ہو رہے ہوتے ہیں اُن کو بھی تھوڑی راحت ملے گی۔ میں تو بہت کوشش کرتا ہوں کہ آفس سے واپسی کے بعد تھوڑی دیر کے لئے سو سکوں مگر کہاں نیند آتی ہے ہاں مگر پانچ دس منٹ کے لئے جو آنکھ لگ جاتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میرا وجود تازہ دم ہوگیا ہو۔ بالکل ایسے جیسے ہم اپنے کمپیوٹر یا موبائل فون کو ریسٹارٹ کرکے فریش کرلیتے ہیں۔
آئیڈیا تو بہت اچھا ہے نعیم بھائی۔
ReplyDeleteجہاں ہم اپنے کلچر اور دیگر صحت مندانہ روایات کی دھجیاں اُڑا چکے ہیں، وہیں قیلولہ بھی
بھول گئے ہیں
اب تو ویسے بھی رات کی نیند بھی میسر آجائے تو وہی بہت ہے :)