ہمارے ملک میں میڈیا کی آزادی کے بعد جس طرح سے ٹی وی چینلز غیر ملکی بے حیاء پروگرام نشر کررہے ہیں یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے یہ تو ہے ہی شتر بے مہار، جہاں سے بھی جیسا بھی پروگرام ملا، آن ایئر کردیا یہ دیکھے بغیر کہ اس پروگرام سے ہماری نئی نسل پر کیا اثرات مرطب ہونگے۔ اُن کو تو صرف اپنے ٹیلی ویژن چینل کی رینکنگ بڑھانے اور اشتہارات حاصل کرنے سے غرض ہے، قوم و ملت جائے بھاڑ میں۔ پچھلے دنوں جب مختلف ٹی وی چینلز پر غیر ملکی ڈراموں کی اُردو ڈبنگ میں مقابلہ شروع ہوا تو دور حاضر کے مشہور نیوز ٹی وی چینل نے اس کے خلاف بہت سارے ٹاک شوز (پروگرام) نشر کئے کہ یہ ہماری روایات کے مخالف ہے اور ہماری قومی تشخص اور ہمارے اقدار کے منفافی ہیں مگر عین اُسی پروگرام کے وقفے کے دوران اُن کے انٹرٹینمٹ چینل پر اُسی قسم کے ایک ڈرامے کا اشتہار چل رہا تھا۔ اب اس دوغلے کردار کو کیا نام دیں؟ اس موضوع پر بہت لکھا اور بولا جا چکا ہے مگر اب ہر نیوز چینل نے کاروبار بڑھانے کے لئے اپنے اپنے انٹرٹینمٹ چینل بھی شروع کئے ہیں جن سے اُن کا مطلب صرف اور صرف روپیہ کمانا ہے اور اس روپیہ کمانے کی دوڑ میں وہ کیا دکھا رہے ہیں اس کی کسی کو پرواہ نہیں۔ پیمرا نام کا ایک ادارہ تو موجود ہے مگر وہ کتنا فعال ہے یہ بھی ہم خوب جانتے ہیں۔ اسی طرح پچھلے دنوں مینگورہ میں ٹی وی کیبل دیکھنے کا اتفاق ہوا، بچوں کا جو کارٹون نیٹ ورک وہ اپنے کیبل پر نشر کررہے تھے وہ بھارت کا چینل تھا، جس میں سارے کارٹون اُن کے دیوی دیوتاؤں اور اُن کے مذہبی سرماؤں کے کرداروں پر مشتمل تھے میرے پوچھنے پر پتہ چلا کہ بچے جب سکول سے واپس آتے ہیں تو فارغ وقت میں اس چینل کے علاوہ کوئی اور پروگرام نہیں دیکھتے، بچوں سے بات چیت ہوئی تو عین توقع کے مطابق اُنہوں نے "بیم" (دیوتا کا کردار)، بھگوان، "کالی ماتا" کے بارے میں بہت ساری معلومات فراہم کیں۔ حالانکہ سٹیلائٹ پر پاکستان کے لئے بھی کارٹون نیٹ ورک کا چینل موجود ہے مگر سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے کیبل آپریٹرز ہندوستان کا کارٹون نیٹ ورک کیوں چلا رہے ہیں۔ اسی طرح کا مسئلہ پشاور میں بھی تھا، جو میرے دوست نے میرے ساتھ شیئر کیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ جب ہم نے احتجاج کیا تو کیبل آپریٹر نے ہندوستان کا بچوں کا کارٹون نیٹ ورک بند کرکے پاکستان کی نشریات والا کارٹون نیٹ ورک شروع کردیا۔ یہ چینلز گھروں میں زیادہ تر بچے ہی دیکھتے ہیں اور وہ یہ تو نہیں سمجھ سکتے کہ میں کیا دیکھ رہا ہوں مگر والدین تو سمجھدار ہیں، کیوں آواز نہیں اُٹھاتے، کیوں اُن کو یہ مسئلہ نظر نہیں آتا۔ کچھ دن پہلے میرے گھر والوں نے مجھے بتایا کہ میری بیٹی جس کی عمر ابھی تین سال بھی نہیں ہے ایک دن کچن میں بیٹھی تھی کہ اچانک اُس نے تھالی اُٹھائی اور گول گول گھمانا شروع کیا اور پھر میری امی کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ بھی کیا، جب ابو نے معلوم کیا تو امی نے بتایا کہ یہ ہندوستانی ڈراموں کی نقل اُتار رہی ہے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ میں نے بہت دن پہلے ایک کالم میں پڑھا تھا جس میں اُن صاحب نے اپنی بیٹی کے بارے میں لکھا تھا کہ جب میری والدہ انتقال کرگئیں اور میت کے قریب خواتین ماتم کررہی تھی اسی وقت میری چھوٹی بیٹی نے مجھ سے پوچھا کہ بابا، دادی جان کی میت کا انتم سنسکار کب کریں گے۔
ہم اپنے گھروں میں بہت شوق سے ڈش انٹینا، کیبل اور انٹرنیٹ تو لگا لیتے ہیں مگر پھر یہ چیک نہیں کرتے کہ ہمارے گھر والے اور خاص کر بچے ان سہولتوں کا کیسے فائدہ اُٹھا تے ہیں وہ کیا دیکھتے ہیں اور اس کا اُن کی شخصیت پر کیا اثر ہوتا ہے۔ پورے پاکستان میں تو کیبل آپریٹرز کی اپنی اپنی کمیٹیاں ہیں جو اُن کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے ، مگر ابھی تک میں نے عام ناظرین کے حقوق کے لئے ایسی کوئی کمیٹی، سوسائیٹی یا ادارے کا نام نہیں سنا ہےجو ان تمام اعتراضات، تحفظات اور تجاویز کو کیبل آپریٹرز کے سامنے پیش کرسکے۔ البتہ انفرادی طور پر بہت سارے لوگوں نے اس معاملے پر بہت کچھ لکھا ہے مگر عمل کوئی نہیں کرتا۔ مینگورہ شہر میں جب کیبل کی سروس شروع ہوئی تو ہم نے بھی ایک عدد کنکشن لگوا لیا۔ کچھ دن تو تسلی بخش نشریات موصول ہورہی تھی مگر اس کے بعد کبھی نشریات بند ہوتی اور کبھی بہت ہی خراب۔ اس کی شکایت جب متعلقہ بندے سے کی تو اُس نے نہایت بدتمیزی کے ساتھ جواب دیا کہ تم نے دو سو روپے کا کنکشن لگایا ہے اور میرا دو کروڑ کا بزنس ہے، یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے آپ خود ہی ٹھیک کریں۔ میں تو حیران رہ گیا کہ کس طرح اس بندے نے مجھے جواب دیا اور وہ تھا بھی کیبل سروس کا مالک۔ پھر جب میں نے اپنے دفتر سے اُن کو فون کیا تو تقریباً دو گھنٹوں میں اُنہوں نے نہ صرف میرے گھر کی کیبل سروس بحال کر دی بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ صاف نشریات موصول ہونے لگی۔ میں سوچتا ہوں کہ کیا ہم ہمیشہ ڈنڈے کے زور پر کام کریں گے، کیا ہمیشہ اُن لوگوں کا کام ہوگا جو طاقت رکھتے ہیں اور کیا عام بندہ جو اپنے پیسے خرچ کرکے سہولت لیتا ہے کیوں اپنے حقوق سے محروم رہتا ہے۔ یہ نہ صرف میرا بلکہ ہم سب کا
مشترکہ مسئلہ ہے، جس پر سوچنے کے ساتھ ساتھ عمل بھی ضروری ہے۔
01.02.2013
مشترکہ مسئلہ ہے، جس پر سوچنے کے ساتھ ساتھ عمل بھی ضروری ہے۔
01.02.2013
www.dailyazadiswat.com 02.03.2013
Comments
Post a Comment